سندھ میں 16 سال سے سسٹم مافیا کا بدنام ترین شکنجہ برقرار
شیئر کریں
( رپورٹ: جوہر مجید شاہ) سندھ بھر میں عرصہ 16 سال سے سسٹم مافیا کا بدنام ترین شکنجہ برقرار ہے۔ زمینوں پر قبضوں میں حکمراں جماعت کے بااثر و طاقتور کھلاڑیوں کے ساتھ کئی سرکاری افسران ، سیاسی و مذہبی جماعتیں ،پریشرز گروپس ، پولیس افسران ، متعلقہ اسٹیشن ہاؤس آفیسرز کے علاؤہ کمشنریٹ سسٹم سے جڑے لوگ شامل ہیں۔ سسٹم مافیا مادر پدر آزاد ہے اور وہ سپریم کورٹ سمیت آئین و قانون سے ماورااپنی اونچی اڑان و پرواز جاری رکھے ہوئے ہے۔ صرف کراچی شہر میں اربوں کھربوں کی سرکاری اراضی ٹھکانے لگا دی گئی۔ ڈسٹرکٹ ملیر ، غربی ، شرقی ، سمیت دیگر اضلاع میں کئی سو ایکڑ سرکاری اراضی ٹھکانے لگا دی گئی۔ جبکہ اس مد میں قومی خزانے کو اربوں کھربوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ذرائع نے انکشاف کرتے ہوئے کہا سسٹم کے مرکزی اور اہم کرداروں میں یوں تو کئی سیاسی و سرکاری شخصیات قابل ذکر ہیں مگر سسٹم کے بادشاہ و بازیگرو میں سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا ان کے بعد ہاٹ سیٹ پر اویس مظفر ٹپی براجمان ہوئے ۔آصف زرداری کی ناراضی کے بعد ان کے بیرون ملک چلے جانے کے بعدتب کے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور کاکا نے اس میدان میں قدم رکھا اور سرکاری اراضی پر قبضوں کے ساتھ شہر کراچی کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کرتے ہوئے پورشن مافیا کا جال بچھا دیا۔ اس ماورائے قانون کھیل و لوٹ مار میںڈی جی ایم ڈی اے سہیل عرف بابو بھی شامل رہے جنھوں نے اربوں روپے کے اس دھندے کو ایک طویل عرصے تک کاندھا دیتے ہوئے اپنے کندھے بھی انتظامیہ سے لے کر عدالتوں تک مضبوط کیے۔ بھاری ریونیو ٹھکانے لگانے کا یہ ایسا منافع بخش کاروبار ہے کہ جو آڈٹ و ٹیکس سے بھی مستثنیٰ ہے۔اس گنگا میں سابق ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ ملیر محمد علی شاہ نے بھی ہاتھ دھوئے۔ یہ مکروہ کاروبار اور کھیل آج بھی عروج پر ہے۔ مذکورہ سسٹم کا سب سے بڑا نام ایک طویل عرصے تک اے جی مجید ہے، جبکہ کئی نامورپولیس افسران بھی سسٹم مافیا سے جڑے ہیں جن کی تفصیلات عنقریب شائع کی جائیںگی۔