سائفر کے شائع شدہ متن کے مستند ہونے پر تنازع
شیئر کریں
امریکا میں سابق پاکستانی سفیر اور امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان گزشتہ برس ہونے والے ایک اجلاس کی تفصیلات پر مبنی سفارتی کیبل (سائفر) کا مبینہ متن رواں ہفتے شائع ہونے کے بعد اس کے مستند ہونے پر تنازع پیدا ہوگیا۔دفتر خارجہ نے ان لیکس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے تاہم امریکا میں ایک حالیہ بریفنگ کے دوران ان مبینہ لیکس کے مستند ہونے کے حوالے سے سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے تبصرے نے دلچسپی پیدا کردی۔امریکی نیوز ویب سائٹ ’دی انٹرسیپٹ‘ نے رواں ہفتے مذکورہ سائفر کا مبینہ متن شائع کیا تھا، نیوز ویب سائٹ نے دعویٰ کیا کہ یہ دستاویز انہیں پاک فوج کے ایک گمنام ذرائع نے فراہم کی ہے جن کا کہنا تھا کہ ان کا عمران خان یا ان کی پارٹی (تحریک انصاف) سے کوئی تعلق نہیں، تاہم کئی لوگ، بالخصوص عمران خان کے ناقدین کا اصرار ہے کہ یہ لیکس صرف پی ٹی آئی کی جانب سے ہی ہو سکتی ہیں۔حال ہی میں وزیر خارجہ کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے بلاول بھٹو زرداری کا ماننا ہے کہ ’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے شائع کردہ دستاویز ’غیر مستند‘ ہے، انہوں نے بتایا کہ فوج کو مذکورہ سفارتی کیبل (سائفر) تک رسائی حاصل ہی نہیں ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ دفتر خارجہ میں ایک انتہائی سخت پروٹوکول کی پیروی کی جاتی ہے اور ایسی کیبلز صرف وزیراعظم، وزیر خارجہ، خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور چند دیگر لوگوں کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے جس کے بعد ایسی تمام کیبلز واپس دفتر خارجہ میں جمع کرادی جاتی ہیں۔مذکورہ سائفر کے مبینہ متن کی اشاعت کے بعد سے ’دی انٹرسیپٹ‘ کے صحافی ایسے لوگوں کے ساتھ مصروف ہیں جو اس کے متن کے مستند ہونے یا اس کے ذرائع پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور ’دی انٹرسیپٹ‘ کے صحافیوں کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ مذکورہ دستاویز کی کے مستند ہونے کے حوالے سے اپنے دعووں کے ثبوت فراہم کریں۔