مینڈیٹ کا مسئلہ
شیئر کریں
کراچی میں گزشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخاب نے آئندہ انتخابات کا منظرنامہ واضح کردیا ہے کہ اب کراچی کے بیدار مغز اور باشعور عوام کیا سوچ رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 114 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو اگرچہ پیمانہ نہیں بنایا جا سکتا لیکن کراچی کی سوچ کے دائروں میں جو فرق آ رہا ہے یہ اس فرق کا عکاس ضرور ہے۔ لیکن اس عکس کو حقیقی سمجھنا بھی حقیقت کے برخلاف ہو گا کہ حقائق ابھی دھند میں چھپے ہوئے ہیں۔ ٹرن آؤٹ کے حساب سے مناسب تعداد میں ووٹ ڈالے گئے ہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات جو پورے ملک میں ایک ساتھ منعقد ہوتے ہیں اور پورے ملک میں ایک خاص فضاء ہوتی ہے اس میں بھی ٹرن آؤٹ 40 سے50 فیصد تک رہتا ہے اس طرح ایک حلقہ کے ضمنی انتخابات اور وہ بھی وہ حلقہ جہاں کے عوام کی اکثریت روزانہ کمانے اور کھانے والوں پر مشتمل ہے، یوں اس حلقہ میں ضمنی انتخابات میں 30/32 فیصد ٹرن آؤٹ مناسب ہے ۔
اس حلقہ میں تمام معروف جماعتیں شریک مقابلہ تھیں اور پیپلزپارٹی کا میدان مارلینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس حلقہ میں بلوچ کالونی،چنیسر گوٹھ وغیرہ کے علاقے ہمیشہ سے پیپلزپارٹی کا گڑھ رہے ہیں ،پھر کچھ علاقوں میں جے یو پی اور کچھ میں جے یو آئی (ف) کا بھی اثر ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ملنے والے تقریباً24 ہزار ووٹ ایک ایسا ہندسہ ہے جو پیپلزپارٹی ماضی میں بھی حاصل کرتی رہی ہے لیکن ایم کیو ایم کو ملنے والے 18 ہزارووٹ اس بات کے غماض ہے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کی گرفت اس حلقہ پر کمزور ہوئی ہے اور اس کی وجوہات بھی سامنے ہیں کہ پاکستان میں ایم کیو ایم (لندن) سے تعلق رکھنے والے عناصر خود کو وفاپرست کے نام سے متعارف بھی کراتے ہیں اور ان کی جانب سے اس الیکشن کے بائیکاٹ کی سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائی گئی جس کا ردعمل بھی سامنے آیا کہ ایم کیو ایم جو اس حلقہ میں ماضی میں بڑے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کرتی رہی ہے وہ ناصرف کامیابی حاصل نہ کر سکی بلکہ مقابلہ بھی اتنا سخت نہیں تھا جتنے سخت مقابلے کی توقع کی جارہی تھی ۔
یوں تو چند ایک پارٹیوں کے علاوہ تمام نے ہی حلقہ سے باہر کے افراد کو انتخابی میدان میں اُتارا تھا اور جن میں کروڑ پتی ہی نہیں ارب پتی امیدوار بھی شامل تھے۔ ان میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کو متوسط طبقہ کا امیدوار قرار دیا جا سکتا ہے کہ سعید غنی اگرچہ وڈیروں ،صنعتکاروں اور جاگیرداروں کی پارٹی کا حصہ ہیں لیکن سعید غنی کی زندگی عملی جدوجہد پر مشتمل ہے۔ انہوں نے مسلم کمرشل بینک اسٹاف یونین سے اپنے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ سفر آج بھی جاری ہے۔ وہ خود غریب نہ ہوں لیکن مزدور یونین میں رہ کر غریبوں کے مسائل کو بخوبی جاننے لگے ہیں۔یہ سعید غنی کا وہ پلس پوائنٹ ہے جس کی بنیاد پر وہ اسمبلی میں اپنی کارکردگی کے ذریعہ غریبوں کے مسائل حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں ۔یوں بھی توقع کی جارہی ہے کہ اسمبلی کا رکن بننے کے بعد انہیں سندھ کا صوبائی وزیرمحنت بھی بنا دیا جائے کہ ماضی میں وہ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے محنت رہ چکے ہیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجہ میں اس منصب سے دستبردار ہوئے تھے ۔
اس حلقہ میں سب سے مالدار امیدوار ایم کیو ایم کے کامران ٹیسوری تھے پھر مسلم لیگ کے علی اکبر گجراور پی ٹی آئی کے نجیب ہارون بھی کم نہ تھے لیکن اس حلقہ نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا ۔پیپلزپارٹی کو اس کامیابی پر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس نے کراچی فتح کر لیا ہے بلکہ اب کراچی میں اس کا اصل امتحان شروع ہوا ہے کہ وہ اس کامیابی کے بعد عوام کو خصوصاً اس حلقہ کے عوام کو کیا ریلیف دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کو غور کرنا ہو گا کہ عام انتخابات کی بات اور تھی، جب بلا بہت مطلوب تھا۔ اب اس حلقہ میں عوام نے یہ احساس دلایا ہے کہ مقامی امیدوار ہی زیادہ بہترہوتا ہے۔ مسلم لیگ جب بھی اس حلقہ سے کامیاب ہوئی تو وہ عرفان اللہ مروت کی شخصیت کا اثر تھا، اگرچہ عرفان اللہ مروت نے پی ٹی آئی کے نجیب ہارون کی حمایت کی لیکن ووٹر اس سے متاثر نہیں ہوا ۔
اگر کوئی انہونی نہ ہو تو عام انتخابات میںاب ایک سال کا عرصہ بھی باقی نہیں رہا ہے اور یہ عرصہ تو انتخابی تیاریوں کا عرصہ ہے جن کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے پنجاب اور کے پی کے میں مورچے لگائیں ہیں تو نواز شریف نے بھی سندھ پر خاص نظرکرم کا آغاز کر دیا ہے۔ عمران خان نے پنجاب کو اپنا ہدف بنایا ہے اور فتح کے ممکنہ امیدواروں کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے پی ٹی آئی میں داخل کرنے کے عمل میں تیزی پیدا کی ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے درمیان عمران خان نے پنجاب میں مسلم لیگ اور پی پی پی کے کئی بڑے ناموں کو پی ٹی آئی میںشامل کیا ہے جن میںڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان،نظر محمد گوندل اور دیگر شامل ہیں سندھ میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ پر نقب لگائی ہے تو پی ٹی آئی نے بھی مسلم لیگ سے ناراض رہنماؤں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ دادو کے لیاقت جتوئی پی ٹی آئی میں جا چکے، اب ارباب غلام رحیم اور دیگر سے معاملات جاری ہیں۔ اسی طرح سے خبریں ہیں کہ دادو کے ملک اسد سکندر بھی آصف زرداری سے ناراض ہیں اور شنید ہے کہ ان کے بھی کپتان سے رابطے ہو رہے ہیں ۔یوں بھی ملک اسد سکندر پارٹیاں بدلنے کے معاملے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں اور وہ اسی درخت پر گھونسلہ بناتے ہیں جس کے سائے میں اسلام آباد کا اقتدار نظرآئے ۔
ایم کیو ایم (لندن) نے اس ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیا ہم اس کی قانونی الجھنوں کی طرف نہیں جانا چاہتے کہ وہ ابھی الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہے اور اگر وہ درخواست بھی دیتے ہیں تو رجسٹریشن ملنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وفا پرست گروپ جس کو ایم کیو ایم (لندن) کی حمایت حاصل ہے وہ اس حلقہ میں آزاد امیدوار لا کر بھی اپنا وجود منوا سکتا تھا جیسا کہ گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ایک یوسی کے چیئرمین شپ کے ہونے والے انتخابات میں ہوا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا حق پرست امیدوار ایک آزاد امیدوار جو خود کو وفاپرست کہہ رہا تھا کے سامنے اس حالت میں شکست کا شکار ہوا کہ ایک یوسی کے چیئرمین شپ کے لیے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی جوکہ حیدرآباد سے ایم این اے بھی ہیں سمیت ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت نے اس کی مہم چلائی تھی ،جن میں کئی موجودہ ایم این اے شامل تھے اور علاقے کے ایم این اے بھی اس کی مہم میں پیش پیش تھا لیکن اس کے باوجود وفاپرست کی خاموش مہم کامیاب رہی اور حق پرست امیدوار ایسی بھرپور مہم کے باوجود شکست سے دوچار ہوا ۔یہ ممکن ہے کہ کراچی کے صوبائی حلقہ میں ایسا نہ ہوپاتا لیکن اگر وفاپرست آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر بھی رہتا تو ایم کیو ایم (پاکستان) کے وجود کی عوامی پزیرائی پر لگا ہوا سوالیہ نشان مزید گہرا ہونا تھا۔ بہرحال ایم کیو ایم (پاکستان) کو اپنے معاملات پر نظرڈالنی چاہیے بصورت دیگر دعویٰ اپنی جگہ کراچی کا مینڈیٹ ایک سے زائد پارٹیوں میں تقسیم ہوتا نظرآرہا ہے۔
اشتیاق احمد خاں