میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے اقدامات پیپلزپارٹی کے لیے تباہ کن

وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے اقدامات پیپلزپارٹی کے لیے تباہ کن

منتظم
بدھ, ۱۲ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

سہیل انور سیال نے وزیر داخلہ بنتے ہی اُن کے حق میں ضمنی الیکشن میں دستبردار ہونے والے بابو سرور سیال کے خلاف کارروائی کی
وزیر داخلہ نے اپنے سیاسی مخالف انڑ خاندان کے خلاف بھی محاذ کھول لیا، انتقامی فیصلے پیپلز پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں
ڈاکٹر فریال ٹالپور کا بیگ اُٹھا کر اور آصف علی زرداری کے پاؤں چھو کر سہیل انور سیال حکومت کی بدنامی کا باعث بننے لگے

اللہ کی قدرت بھی عجیب ہے اگر دیتا ہے تو بے حساب دیتا ہے اور اگر چھینتا ہے تو عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے۔ ضلع لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری سے تعلق رکھنے والے سیال خاندان کو 2014 تک کوئی بھی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں سہیل انور سیال یونین کونسل کے ناظم کا الیکشن ہار گئے تھے اور اب وہ حکومت سندھ میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ فریال تالپر کا بیگ اٹھاتے ہیں، آصف زرداری کے پائوں چھو کر ملتے ہیں، ان کی اس ادا نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
وزیر داخلہ اب اپنے اسی ہنر کے باعث وزیر اعلیٰ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ سہیل انور سیال ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار بابو سرور سیال کو دستبردار کرانے کے لیے فریال تالپر کو ساتھ لے جاکر بابو سرور سیال کے گھر پہنچ گئے تو بابو سرور سیال نے ان کو عزت دے کر ان کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن جیسے ہی وہ منتخب ہوئے اور پھر حیرت انگیز طور پر وزیر داخلہ بنے تو سب سے پہلے بابو سرور سیال کے خلاف ہی کارروائی کی۔ حضرت علیؓ کا فرمان ایسے ہی موقع پر یاد آتا ہے کہ جس پر احسان کرو اُس کے شر سے بچو۔ بابو سرور سیال کے گائوں پر چھاپے مارے گئے، فائرنگ کرائی گئی جس کے نتیجہ میں ان کا نوجوان بھانجا قتل ہو گیا۔ اُن پر مقدمات بنے مگر وہ سیاسی ورکر ہے اس لیے انہوں نے قانون کا سہارا لیا۔ مگر سیاست میں بھی کیا کیا کمالات ہوتے ہیں۔ لاڑکانہ کے ٹھیکیدار اسد کھرل کی گرفتاری ہوئی تو سہیل انور سیال کے حکم پر ان کے بھائی طارق سیال نے درجنوں مسلح افراد لے جاکر نیب، رینجرز اور حساس اداروں کی مشترکہ ٹیم کو یرغمال بنالیا اور یوں ان کو زبردستی چھڑالیا گیا۔ اسد کھرل کے مسئلہ پر حساس ادارے اور رینجرز ایسے ناراض ہوئے کہ سہیل انور سیال کو دن میں تارے دکھا دیئے گئے۔ اُن کے گائوں پرچھاپے مارے گئے۔ اُن کی رہائش گاہ کے اطراف میں عارضی چوکیاں بنا دی گئیں، تب سہیل انور سیال کے بھائی طارق سیال نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ انہیں رینجرز سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ پھر چیف جسٹس کا بیٹا اغوا ہوا تو بابو سرور سیال نے الزام عائد کیا کہ سہیل انور سیال نے بیرسٹر اویس شاہ کو اغوا کرایا ہے۔
سہیل انور سیال کو ان حالات نے بہت پریشان کیا اور جب قائم علی شاہ کے بعد مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو سہیل انور سیال کو بمشکل وزیر زراعت بنایا گیا۔ ان کو محکمہ داخلہ کا قلمدان نہیں دیا گیا۔ اب جب حالات تبدیل ہوئے ہیں تو ان کو دوبارہ محکمہ داخلہ کا قلمدان دیا گیا ہے ۔ مگر اب وہ پھر اپنی عادت سے مجبور ہو کر اپنے سیاسی مخالف انڑ خاندان سے ٹکرائو میں آگئے ہیں۔ اللہ بخش عرف ڈاڈا انڑ کی 500 ایکڑ زمین ضلع خیر پور میں ہے جہاں ایک بہلیم خاندان بھی قریب میں رہائش پزیر ہے۔ بہلیم خاندان کی اپنی بھی زمینیں اور ان کے اپنے بھی تنازعات ہیں۔ اللہ بخش انڑ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ان کی 500 ایکڑ زمین پر وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے قبضہ کرایا ہے۔ اگر میری جان کو نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری سہیل انور سیال پر عائد ہوگی۔ بس پھر کیا ہوا سہیل انور سیال طیش میں آگئے۔ اُنہوں نے فوری طور پر بہلیم خاندان سے رابطہ کیا اور اسی روز تین گھنٹے کے اندر خیر پور میں بہلیم خاندان کی پریس کانفرنس کرائی جس میں بہلیم خاندان کا مؤقف تھا کہ ان کی زمین پر اللہ بخش عرف ڈاڈا نے قبضہ کیا ہے۔ اسی دوران بہلیم خاندان کا آپس میں جھگڑا ہوگیا اور اُس میں ایک نوجوان قتل بھی ہوگیا۔ وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے مقتول کے خاندان پر دبائو ڈالا کہ اس واقعہ میں اللہ بخش انڑ
کو بطور ملزم نامزد کیا جائے لیکن مقتول کے ورثاء نے قطعی انکار کر دیا تو سہیل انور سیال نے مقتول کے ایک دور کے رشتے دار کو راضی کرکے ایف آئی آر درج کرالی جس میں اللہ بخش عرف ڈاڈانڑ کو ملزم نامزد کیا گیا۔ اللہ بخش عرف ڈاڈا انڑ نے آئی جی سندھ پولیس سے درخواست کی کہ جناب یہ کھلا ظلم ہے کہ ایک بندہ قتل ہوتا ہے اس کی ایف آئی آر اس کا بھائی درج کرانے جاتا ہے تو انکار کیا جاتا ہے کیونکہ مقتول کا بھائی مجھے ملزم نامزد نہیں کرتا پھر وزیر داخلہ کسی اور کو راضی کرکے ایف آئی آر درج کراتا ہے جس میں مجھے ملزم بنا دیا جاتا ہے۔جس پر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے ایس ایس پی جامشورو تنویر عالم اوڈھو کو تحقیقاتی افسر مقرر کرکے معاملے کی چھان بین کا حکم دیا۔ وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے کوشش کی کہ تنویر عالم اوڑھو اپنی تحقیقات کے وہی نتائج دیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر تنویر عالم اوڈھو انکار کردیا۔جس پر اگلے روز تنویر عالم اوڈھو کا تبادلہ کر دیا گیا اورعرفان بہادر کو نیا ایس ایس پی جامشورو بنا دیا گیا۔ خیراب تحقیقات کے نتائج توجب سامنے آئیں گے جب یہ پتہ چلے گا کہ یہ تحقیقات تنویر عالم اوڈھو مکمل کرتے ہیں یا پھر اس کی انکوئرای بھی عرفان بہادر کو منتقل کر دی جاتی ہے؟ لیکن اس سارے واقعہ کے بعد سہیل انور سیال کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے اور اُن کی انتقامی ذہنیت بھی پوری طرح بے نقاب ہو چکی ہے۔ وہ اپنے اقدامات سے سابق حکمرانوں کو بھی پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ اور سندھ کے حکمران خاندان کو یہ اندازا ہی نہیں ہور ہا کہ سہیل انور سیال ، ڈاکٹر فریال ٹالپور کا بیگ اُٹھا کر یا آصف علی زرداری کے قدموں کو چھو کر جو گنجائشیں لے رہے ہیں اور جس طرح کے اقدامات اُٹھانے لگے ہیں وہ مستقل طور پر پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے نہایت خطرناک ہے اور اُن کے عوامی تاثر کو انتہائی گدلا کررہے ہیں۔
الیاس احمد


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں