شریف خاندان اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدن کا جواز پیش کرنے میں ناکام
شیئر کریں
گلف اسٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی 14 اپریل1980 میں فروخت کا ریکارڈ موجود نہیں ، طارق شفیع کے نام 12 ملین درہم کی لین دین کبھی ہوئی ہی نہیں
دبئی کسٹمز کے ریکارڈ کی پڑتال سے ظاہر ہوا کہ 2001۔2002 کے دوران میں کوئی اسکریپ مشینری دبئی سے جدہ منتقل نہیں کی گئی
شریف خاندان کی زیادہ تر کمپنیاں یا تو بند رہیں یا نقصان میں رہیں، گزشتہ بیس برسوں میں ان میں کوئی قابل ذکر کاروبار نہیں ہوا
عدالت عظمیٰ کے حکم پر قائم جے آئی ٹی کے سنسنی خیز انکشافات
متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف نے اہیل اسٹیل جسے بعد میںگلف اسٹیل کا نام دیاگیا، میں طارق شفیع کے25 فیصد شیئرز کی 14 اپریل1980 میں فروخت کے بارے میں معلومات طلب کرنے پر کہ آیا یہ درست ہے یا غلط ،جواب دیا کہ دبئی کی عدالتوں نے 30 مئی2016 کو اس کی چھان بین کی ۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف نے لکھا ہے کہ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ دبئی کی عدالتوں کے نظام کے ریکارڈمیںاہیل اسٹیل جسے بعد میں گلف اسٹیل کانام دیاگیا ،کی چھان بین کے بعد درج ذیل تصدیق کی جاتی ہے کہ:۔
1۔1980 میں اہیل اسٹیل جسے بعد میں گلف اسٹیل کانام دیاگیاکے 25 فیصد شیئرز کی 14 اپریل1980 میں فروخت کاکوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے یعنی ایسی کوئی فروخت نہیں ہوئی ۔
2 ۔ اہیل اسٹیل جسے بعد میں گلف اسٹیل کانام دیاگیا،کے 25 فیصد شیئرز کی جناب محمد طارق شفیع کے نام 12 ملین درہم کی کوئی لین دین کبھی ہوئی ہی نہیں۔
3 ۔ایسا کوئی ریکارڈ بھی نہیں ملا جس سے یہ ظاہر ہوتاکہ دبئی کی عدالتوں میں 30 مئی 2016 کو کسی نوٹری پبلک کی جانب سے ایسے کسی ڈاکومنٹ کی تصدیق کی گئی ہو۔
تیسری بات اہیل اسٹل ملز کی اسکریپ مشینری کی جدہ میں2001-2002 میں العزیزہ اسٹیل ملزکے قیام کے لیے دبئی سے جدہ منتقلی کے بارے میں ہے۔
اس حوالے سے ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ دبئی کسٹمز کے ریکارڈ کی چیکنگ کے بعدیہ ظاہرہوا ہے کہ 2001۔2002 کے دوران میں کوئی اسکریپ مشینری دبئی سے جدہ منتقل نہیں کی گئی۔
چوتھی بات:۔ جناب محمد شفیع کی جانب سے جناب فہد بن جاسم بن جابر بن الثانی یا ان کے کسی مقرر کردہ نمائندے کو 1978-1981 کے دوران ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی منتقلی کے بارے میں اور جناب عبداللہ کائید کی جانب سے طارق شفیع کو 1978-1981 کے دوران اہیل اسٹیل ملز کے بقیہ 25 فیصد شیئرزکی فروخت کے ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی ادائی کے حوالے سے بینک ریکارڈ کے حوالے سے ہے۔
سینٹرل بینک نے اطلاع دی ہے کہ سینٹرل بینک کے ریکارڈ میں اس طرح کی رقم کی منتقلی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
دستخظ
جج/عبدالرحمان مراد علی بلوشی
ڈائریکٹر انٹرنیشنل کوآپریشن ڈیپارٹمنٹ
رمضان شوگر ملز لمیٹیڈ1993-2015
اتفاق شوگر ملز لمیٹیڈ1990-1996
حمزہ شوگر ملز لمیٹیڈ1994-2001
اتفاق ٹیکسٹائل ملز لمیٹیڈ
1990,1993-1994
16 ۔ ان کمپنیوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کو دستیاب ریکارڈ کے حوالے سے ان کمپنیوں کا تفصیلی مالی تجزیہ انیکس II میں ہے:۔
الف۔ یہ کمپنیاں جن میں مدعا علیہان شیئرہولڈرز/ ڈائریکٹرز/ بینی فیشیل مالکان کے طورپر کام کررہے تھے بنیادی طورپر ان کی فیملی کی زیر ملکیت کاروبار ہے، یہ کمپنیاں زیادہ تر1980 سے 1990 کے دوران قائم کی گئیں جب مدعاعلیہ اقتدار میں تھا۔
ب۔مدعا علیہان نے شیئر ہولڈرز کی حیثیت سے اس میں بہت معمولی سرمایہ لگایا اور یہ کمپنیاں زیادہ تربینکوں /مالیاتی اداروں /غیر ملکی مالیاتی اداروں یا بیرون ملک میں قائم اسپیشل پرپز وہیکل کے ذریعے حاصل سرمائے سے قائم کی گئیں۔
ج۔ان کمپنیوں کے ابتدائی مراحل میں فنڈز بطور قرض لیاگیا اور قرض کی یہ رقم دیگر مقاصد پر خرچ کی گئی، پلانٹس اور مشینری لگانے کے لیے غیر ملکی فنڈز جمع کیے گئے، تاہم زیادہ تر کمپنیاں یا تو بند رہیں یا ان کو ان کی پوری استعداد کے مطابق نہیں چلایاگیا اور ان کو نقصان ہوا جس سے ایکویٹی منفی ہوگئی۔ایسی کمپنیوں میں محمد بخش ٹیکسٹائل ملز لمیٹیڈ، حدیبیہ پیپر ملز لمیٹیڈ، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ ،حمزہ بورڈ ملز لمیٹڈ، مہران رمضان ٹیکسٹائل ملزم لمیٹڈ شامل ہیں۔
د ۔ ناقص کارکردگی اور آپریشنل منافع نہ ہونے کی وجہ سے چند برسوں کے علاوہ منافع کااعلان نہیں کیاگیا،یہ تما م کمپنیاں زیادہ تر نقصان میں رہیں اور گزشتہ کم وبیش 20سال کے دوران ان میں کوئی قابل ذکر کاروبار نہیں ہوا۔
نتیجہ
17۔مذکورہ بالا تفصیلی تجزیئے سے ظاہرہوتاہے کہ مدعاعلیہان نمبر 1,6,7 اور 8 ظاہری اور ظاہر کردہ آمدنی اور دولت کے ذرائع میں نمایاں تفاوت / اور فرق موجود ہے۔پاکستان میں ان کمپنیوں کامالی ڈھانچہ اور ان کی حالت مدعاعلیہان کی حالت اور دولت سے مطابقت نہیں رکھتیںاور مدعاعلیہان کی جانب سے ظاہر کردہ دولت مدعاعلیہان کی جانب سے بظاہر اور اعلان کردہ رقم کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتی۔
18 ۔مزید براں سعودی عرب میں قائم کمپنی (ہل میٹلز اسٹبلشمنٹ) برطانیا میں قائم کمپنیوں( فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹیڈ اور دیگر ) اور متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی (کیپٹل ایف زیڈ ای) کی جانب سے مدعاعلیہ نمبر ایک ،مدعاعلیہ نمبر 7 اور مدعاعلیہ نمبر ایک اور فیملی کو بڑی تعداد میں قرضوں اور تحائف کی بے قاعدہ آمدورفت اجاگر کی گئی ہے۔
19 ۔آف شور کمپنیوں کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ اس تفتیش کے دوران کئی آف شور کمپنیوںکا جن میں (نیسکول لمیٹیڈ،نیل سن انٹرپرائز لمیٹیڈ ،الانہ سروسز لمیٹیڈ ،لیم کن ایس اے،کومبر گروپ انکارپورٹیڈ ،ہلٹرن انٹرنیشنل لمیٹیڈ )برطانیا میں ان کے کاروبار سے تعلق کی نشاندہی ہوئی، یہ کمپنیاں دراصل برطانیا میں قائم کمپنیوں کوفنڈز کی منتقلی کے لیے استعمال کی جاتی تھیں جن کی برطانیا میں اس رقم سے خریدی گئی کوئی قیمتی املاک نہیں ہیں اور یہ فنڈز ان کی برطانیا ،کے ایس اے ،متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی کمپنیوں میں تقسیم ہوجاتاتھا۔
20 ۔ ان کمپنیوں کے علاوہ مدعاعلیہ نمبر ایک اور 7 نے تحائف /قرضوں کی شکل میں یہ فنڈز وصول کیے جس کامقصد اور وجہ کا وہ جے آئی ٹی کے سامنے جواز پیش نہیں کرسکے۔یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ برطانیا کی یہ کمپنیاں نقصان میں چل رہی تھیںاور ان کو فنڈز کی منتقلی کے لیے یہ تاثر دینے کیلئے استعمال کیاجارہاتھا کہ برطانیاکی قیمتی پراپرٹیز برطانیا میں قائم ان کمپنیوں کے کاروبار کی وجہ سے ہیں ۔
21۔جے آئی ٹی حوالہ دینے پر مجبور ہے :۔
قومی احتساب آرڈیننس 1999کی دفعہ 9(a)(v)
سرکاری عہدے پر فائز کوئی بھی شخص یا کوئی اور فرد کرپشن کامرتکب ہوا یا کرپٹ طریقہ کار اختیار کیا۔
(v) اگر وہ یا اس کاکوئی زیر کفیل یا بے نامی کسی ایسی املاک کامالک ہو یا کسی املاک میں حصہ دار بن جائے یا ناقابل تنسیخ پاور آف اٹارنی حاصل کرے جو اس کی معلوم آمدنی اور ذرائع آمدنی سے مطابقت نہ رکھتا ہو اور جو وہ اپنے ذرائع آمدنی سے حاصل کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتاہو۔
قومی احتساب آرڈی ننس 1999 کی دفعہ 14(c) :۔
اس آرڈی ننس کی دفعہ 9 کی کلاز (v) کی ذیلی دفعہ (a)کے تحت قابل سزا جرم پر کوئی بھی مقدمہ اس بنیاد پر چلایاجائے گا کہ ملزم یا اس کی معرفت کوئی دوسرا فرد کسی ایسی املاک یااثاثے کا مالک ہے جس کا ملزم کے پاس اطمینان بخش حساب کتاب نہیں ہے خاص طورپر وہ اس شخص کے معلوم اور ظاہر ذریعہ آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتا یا اس جرم کے ارتکاب کے وقت اس کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتاتھا،عدالت یہ تصور کرے گی کہ ملزم کرپشن اور کرپٹ عمل کامرتکب ہوا ہے اور اس پر اس کو دی جانے والی سزا صرف تصور کی بنیاد پر دی جانے والی سزا کی بنیاد پر غلط نہیں ہوگی۔
22۔قانون شہادت آرڈر 1984 اور درج ذیل دفعات بھی اس سے متعلق ہیں:۔
122حقیقت خاص طور معلوم حقائق، کو ثابت کرنا متعلقہ شخص کی ذمہ داری ہوگی۔
’’قانون شہادت آرڈر ،1984 کی دفعہ 117 ۔
117 ثابت کرنے کی ذمہ داری(I) جو کوئی یہ چاہتاہے کہ عدالت حقائق کے مطابق قانونی حق یا لائب لیٹی کا موجود حقائق کے مطابق فیصلہ کرے تو اسے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ حقائق موجود ہیں۔
(2) جب ایک فرد حقائق کی موجودگی ثابت کرنے کاپابند ہے تو یہ کہاجائے گا کہ ثبوت فراہم کرنا متعلقہ شخص کی ذمہ داری ہے۔
قانون شہادت آرڈر1984 کی دفعہ 129 کے تحت عدالت بعض حقائق کے موجودہونے کو فرض کرسکتی ہے ،عدالت کسی معاملے کے بارے میں کسی قسم کے حقائق کی موجودگی اس سے متعلق قدرتی ایونٹس، انسانی طرز عمل ، نجی کاروبار کی بنیادپر حقائق کی موجودگی کو فرض کرسکتی ہے۔
قانون شہادت آرڈر ،1984 کی دفعہ 2(4),(7) اور(8)کے تحت ثبوت کی تعریف:۔
(4) حقیقت پیش نظر معاملے کاجائزہ لینے کے بعد ثابت ہوگی عدالت یا تو اس کے وجود کا یقین کرے گی یا کسی خاص معاملے میں مخصوص حالات کے تحت اسے یقین ہوگا کہ ہوسکتاہے کہ ایسا ہواہوگا۔
(7) جب بھی یہ آرڈر ہو کہ یہ عدالت اس حقیقت کو سمجھتی ہے،تو اسے ثابت شدہ تصور کیاجائے گا یا پھر اسے غلط ثابت کرنے کیلئے ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
(8) جب بھی یہ کہا جائے کہ عدالت کسی بات کوحقیقت تصور کرتی ہے تو وہ حقیقت تصور کیاجائے گا ،تاآنکہ اس کو غلط ثابت نہ کردیاجائے۔
22 ۔تمام مدعاعلیہان کی جانب سے آمدنی کے معلوم ذرائع کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہنے کی بنیاد پر یہ بات واضح ہے کہ مدعاعلیہان اپنے اثاثوں اور ذرائع آمدنی کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہیں۔