قبر 70 ہزار کی
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کو بھی علم ہوگیا ہے کہ مرنے کے بعد قبرستان میں دفن ہونے کے لیے قبر 70 ہزار روپے دے کر ملتی ہے۔ ان کا بیان پڑھا تو حیرت ہوئی کہ ہماری اشرافیہ کو دوسروں کی قبریں نظر آتی ہیں انکا دفن ہونا اور پھر ایک قبر 70ہزار روپے میں ملنا انہیں معلوم ہے لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ کچھ لوگ حالات سے تنگ آخر خود کشیاں کررہے ہیں جن کے کفن دفن کا انتظام محلے والے یا ایدھی والے کرتے ہیں۔
سندھ میں تو خیر سے عرصہ دراز سے پیپلز پارٹی ہی اقتدار میں ہے، مرکز میں بھی آئے اب انہیں ایک سال ہو چلا ہے اور بلاول بھٹو نے اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ ہی اپنی پہلی تقریر میں پاکستانیوں کو پرانے پاکستان میں خوش آمدید کہا تھا، جی ہاں وہی پرانا پاکستان جہاں لوٹ مار کا بازار گرم تھا ۔عام انسان کا جینا مشکل اور مرنا آسان تھا ابھی تو رمضان المبارک کے دن ہیں اور مہنگائی نے غریب لوگوں کی چیخیں نکال رکھی ہیں ایک طرف آٹے کے حصول میں لوگ مررہے ہیں تو دوسری طرف حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مختلف حیلے بہانے استعمال کررہے ہیں۔ لگتا ہے ملک کی کسی کو پرواہ نہیں ہماری خواتین گھروں میں قید کی سی زندگی گزاررہی ہیں جس معاشرے میں مردوں کو نوکری نہیں مل رہی، وہاں خواتین کیا کام کرینگی اور ویسے بھی پاکستانی خواتین کی معاشی شراکت اور مواقع کے لحاظ سے 146ممالک میں سے 145ویں نمبر پر ہے۔ ملک کی نصف آبادی ہونے کے باوجود خواتین کی موجودہ افرادی قوت میں صرف 21 فیصد شرکت ہے اور ان میں سے صرف 25 فیصد خواتین کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری اور صرف 8 فیصدخواتین مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی مالک ہیں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں خواتین لیبر فورس کی شرکت کی شرح بہت کم ہے جو 1990-2019کے عرصے کے دوران 14-21.7 فیصد کے درمیان ہے جس کی بنیادی وجہ امتیازی سماجی اصول، تعاون کی کمی، سخت ورکنگ کلچر کے ساتھ ساتھ سستی اور معیاری بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز کی کمی نے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو غیر پیداواری بنا دیا ہے۔ حالانکہ کاروباری سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کو بڑھانا بہترین ملکی مفاد میں ہے۔ خواتین کو اسٹارٹ اپ شروع کرنے اور ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے اختراعی آئیڈیاز استعمال کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے خاص کرلیبر فورس میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک یکساں میدان فراہم کرنے کے لیے دانشمندانہ اقدامات کیے جائیں۔ ان میں خواتین کے حامی قوانین کا نفاذ، خواتین کے لیے مالیاتی رسائی میں توسیع، کام کے لچکدار اوقات اور بچوں کی دیکھ بھال کی بہتر سہولیات میسر ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں زرعی شعبے میں بھی دیہی خواتین کی شرکت کو تسلیم کرنا چاہیے ہماری دیہاتی خواتین شہری خواتین کے مقابلہ میںزیادہ محنتی جوکھیتوں میں تقریبا مردوں کے برابر کام کرنے کے کے ساتھ ساتھ گھرکا کام بھی کرتی ہیں۔
دیہات کا ذکر آیا تو بتاتا چلوں کہ اس سال گندم نے جو عوام کا حشر کیا ہے آنے والے دنوں میں اس سے بھی برا حال ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں گندم کی بوائی کا رقبہ کم ہو کر 8,976 ہزار ہیکٹررہ گیااورگندم کی پیداوار 27 ملین ٹن کے مقابلے میں کم ہو کر 26 ملین ٹن رہ گئی پاکستان میں فی ہیکٹر اوسط پیداوار 2.9 ٹن ہے گندم کی روایتی اقسام کے مقابلے میںہائبرڈز فی ہیکٹر 30 فیصد تک زیادہ اناج دے سکتی ہیں،ہائبرڈ گندم کو اپنانے سے پاکستان میں پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کوبھی پورا کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں گندم بنیادی خوراک ہے اور اس کی پیداوار ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میںفصل کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے بلخصوص حالیہ بارشوں نے بھی گندم کی فصل کو متاثر کیا جو مستقبل قریب میں خوراک کی قلت کا باعث بن سکتی ہے گندم کی پیداوار میں اس کمی کی بنیادی وجہ فرسودہ کاشتکاری کی تکنیک اور روایتی اقسام کے استعمال کی وجہ سے فی ہیکٹر کم پیداوار ہے روایتی قسمیں کئی سالوں سے استعمال ہو رہی ہیںاور پیداوار کے لیے ان کی جینیاتی صلاحیت ختم ہو چکی ہے اس لیے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے نئی اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام متعارف کرانے کی ضرورت ہے اورہائبرڈ گندم اس مسئلے کا حل ہے یہ دو مختلف اقسام کے درمیان ایک کراس ہے جن میں مطلوبہ خصلتیں ہیں اس عمل کا نتیجہ ایک ہائبرڈ کی صورت میں نکلتا ہے جس میں سے کسی سے بھی زیادہ پیداوار کی صلاحیت ہوتی ہے ہائبرڈ گندم کی فی ہیکٹر اوسط پیداوار گندم کی روایتی اقسام سے بہت زیادہ ہے اس لیے ہائبرڈ گندم کو اپنانے سے پاکستان میں پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکتا ہے زیادہ پیداواری صلاحیت کے علاوہ ہائبرڈ گندم کے بے شمار فوائد بھی ہیں اور اس پر بیماریوں اور کیڑوں کا اثر بھی بہت کم ہوتاہے۔ کیڑے مار ادویات اور جڑی بوٹی مار ادویات کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے اور گندم کی یہ قسم خشک سالی میں بھی اپنا کام کر جاتی ہے ۔ خاص کر پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے علاقوں کے لیے فائدہ مند ہے حکومت زرعی ماہرین اور کسانوں کو ہائبرڈ گندم اور جدید کاشتکاری کی تکنیکوں کو اپنانے کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ کاشتکاروں کو ہائبرڈ گندم کی طرف جانے کے لیے سبسڈی اور مراعات فراہم کرے اور ماہرین کاشتکاروں کو ہائبرڈ گندم کے فوائد سے آگاہ کریں اور انھیں ضروری تربیت فراہم کریں کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی اور کاشتکاری کی تکنیکوں کو اپنانے پر آمادہ ہونا چاہیے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو اور پاکستان کی غذائی تحفظ میں اپنا حصہ ڈالا جا سکے۔
٭٭٭