میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کودرپیش معاشی مشکلات اورحکومت کے دعوے

پاکستان کودرپیش معاشی مشکلات اورحکومت کے دعوے

منتظم
جمعرات, ۱۲ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح 5.79 کے رفتار سے گامزن ہے اگرچہ 18-2017 کے لیے مقرر کردہ اہداف سے تھوڑی کم رہی تاہم گزشتہ 11 برسوں کے مقابلے میں میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔نیشنل اکاؤنٹ کمیٹی (این اے سی) کے اجلاس میں عبوری نتائج کے حوالے سے بتایا گیا کہ 20 سے 15 (گروتھ انڈیکیٹرز) ترقی پر مشتمل اشاریے اہداف کے عین مطابق ہیں تاہم گروتھ ریٹ کی حتمی صورتحال صوبوں کی جانب سے مالی سال مکمل ہونے پر سامنے آئے گی۔دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر خزانہ اور دیگر وزرا ا س بات پر اصرار کرتے نظر آرہے ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے 6ارب ڈالر سے زیادہ رقم بیرون ملک سے وطن واپس آجائے گی جس کے بعد ملک کو درپیش موجودہ مالیاتی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور ملک کو آئی ایم ایف سے کوئی بیل آئوٹ پیکیج نہیں لینا پڑے گا۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اب تک ہونے والی ٹیکس اصلاحات میں ایک اور انقلابی اصلاح کا اضافہ کر کے ٹیکس ریٹ 35 فیصد سے کم کر کے 15فیصد کر دیا ہے وزیراعظم کا خیال ہے کہ ٹیکس ریٹ میں کمی کے بعد اب زیادہ لوگ ٹیکس دینے پر آمادہ ہوجائیں گے اور اس طرح پاکستان پر سے یہ دھبہ دھل جائے گا کہ پاکستان کے تاجر اور صنعت کار وسرمایہ کار ٹیکس نہین دیتے اور 21 کروڑ نفوس کے اس ملک میں ٹیکس نیٹ میں صرف 16 لاکھ افراد کے نام ہی ملتے ہیں لیکن 21کروڑ میں سے 20 کروڑ لوگوں کے لیے اس اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔20 کروڑ افرادکے لییٹیکس ریٹ اگر زیرو بھی ہو جائے تو اس کی اہمیت ان کے لیے کچھ نہیں ہے ۔

فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معیشت حقیقی معنوں میں مشکلات اور آفات کی زد میں ہے اس کا ذکر ہر طرف ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنے اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسٹیٹ بینک پاکستان جو ایک حکومتی ادارہ ہے نے بھی پچھلے ہفتے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے معیشت کی اْن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے جن کے نتیجے میں خدانخواستہ ایک معاشی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی گھبراہٹ کے عالم میں حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کردی جس سے آنے والے دنوں میں عوام کے لیے مختلف مسائل پیدا ہوں گے۔

ایک طرف معیشت کی یہ صورت حال ہے جس میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں، کرپشن اور بدانتظامی اپنے عروج پر ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت نے 2013میں اپنے سفر کے آغاز کے وقت قوم و ملک کے ساتھ کیا دعوے کیے تھے۔ معیشت کی گاڑی کو پٹری پر لانے کے لیے کیا کیا دعوے کیے تھے۔ سادہ لوح عوام کو کیا کیا سہانے خواب دکھائے تھے اس سلسلے میں 2013کے الیکشن سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جس میں معیشت کی بحالی پر بہت زور دیا گیا تھا۔ زرعی اور صنعتی ترقی، بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی، برآمدات اور ٹیکسوں میں اضافے کے لیے اونچے اونچے دعوے کیے گئے تھے۔ منشور کے آغاز میں 2013 میں ملکی معیشت پر اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے کہ ملک پھیلے ہوئے کرپشن، بڑھتے ہوئے افراط زر، مسلسل لوڈشیڈنگ، بے انتہا بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ لیکن کیا 2013کے مقابلے میں 2018میں صورت حال مختلف ہے۔ پاکستانی عوام کو تو بظاہر کوئی فرق نظر نہیں آتا بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ کئی لحاظ سے صورت حال اور زیادہ ابتر نظر آتی ہے۔

بحالی معیشت کے لیے جن بڑے بڑے اقدامات کے دعوے کیے گئے تھے اْن میں پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ یعنی مجموعی قومی پیداوار کو 12 فی صد سے بڑھا کر 20 فی صد تک لے جانا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ معیشت میں جان ڈال دیتا ہے۔ اس سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور ہر طرف خوشحالی نظر آتی ہے، سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے اقدامات کی ایک لمبی فہرست منشور میں شامل ہے۔ مگر اْن پر 25 فی صد بھی عمل نہیں ہوا اور آج سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 15 فی صد ہے۔ اسی طرح ٹیکسوں میں اضافے کے لیے خوشنما اعلانات کیے گئے تھے کہ نئی ٹیکس اصلاحات کے نتیجے میں مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکسوں کی شرح 15 فی صد تک پہنچا دی جائے گی لیکن ابھی تک یہ شرح 10 سے11 فی صد تک ہے اور اس میں بڑا حصہ سیلز ٹیکس کا ہے جو ایف بی آر کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا سب سے آسان راستہ ہے اور اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ماہ اپریل 2018 کے لیے پیٹرول پر سیلز ٹیکس 21.5 فی صد اور ڈیزل پر 27.5 فی صد کردیا ہے یعنی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے بجائے ٹیکس کی شرح بڑھا کر یہ فائدہ حکومت کو پہنچایا جارہا ہے۔

معاشی صحت کا ایک اہم پیمانہ بجٹ خسارہ ہے دوسرے الفاظ میں آمدنی اور اخراجات میں فرق۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ یہ فرق جتنا زیادہ ہوگا اتنی ہی معیشت کمزور ہوگی، اسی لیے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے گا۔ یہ خسارہ بھی ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے یعنی اسے مجموعی قومی پیداوار سے 3 سے 4 فی صد تک ہونا چاہیے۔ موجودہ حکومت نے اس خسارے کو 4 فی صد تک کرنے کا عزم کیا تھا۔ مگر حکومت کی فضول خرچیاں، اللے تللے اور عیاشی و سیر و سیاحت کے باعث اخراجات بڑھتے گئے اور یہ اخراجات زیادہ تر اس طبقے پر ہوئے جو یا تو ٹیکس ادا نہیں کرتا یا بہت کم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ چنانچہ ٹیکسوں میں کمی اور اخراجات میں اضافے کے باعث بجٹ خسارہ ملک کی جی ڈی پی کا 5.5 فی صد ہوگیا ہے جو خطرے کی گھنٹی ہے۔

اسی طرح ملکی قرضوں کا معاملہ ہے، حکومت نے 2013 میں قرضوں کو ایک بہت بڑی برائی قرار دیتے ہوئے انہیں محدود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اور اس سلسلے میں اقدامات اور اصلاحات کی ایک فہرست تھی۔ مگر ہوا کیا۔ حکومت کا عمل ان پچھلے5سال میں بالکل برعکس ہوا اور حکومت نے سوائے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کرنے کے شاید کوئی کام نہ کیا، ان5 سال میں ملکی قرضوں میں 35 فی صد اضافہ ہوا اور یہ قرضے 13500 ارب رپے سے بڑھ کر 20,000 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اب قرض تو کیا واپس ہوگا اس کا سود ہی ادا کرنا حکومت کے لیے درد سر ہے۔غرضیکہ ان وعدوں اور وعدہ خلافیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے دیگر ساتھی تو چند ماہ کے مہمان ہیں اور وہ بخیریت اپنے اپنے گھروں کوچلے جائیں گے لیکن ان کے سیاسی گرو نواز شریف اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار نے اس قوم کو قرض کے جس بوجھ تلے دبادیاہے اس سے نجات کا نہ صرف یہ کہ بظاہر کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا بلکہ خدشہ یہ ہے کہ قرض کا یہ بوجھ اب ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا جائے گا ۔ اس سے ظاہرہوتاہے کہ شریف فیملی نے اس قوم کو ایک ایسے بھنور میں پھنسا دیاہے جس سے نکلنا ناممکن ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں