میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افسپا اورپوٹا کے تحت بھارت فوج کے ظلم وستم

افسپا اورپوٹا کے تحت بھارت فوج کے ظلم وستم

منتظم
جمعرات, ۱۲ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

شہزاد احمد
مقبوضہ کشمیرمیں کانگرس کے سینئر لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز کا کہناہے کہ مقبوضہ علاقے میں رائج کالاقانون آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ افسپاء مہلک اور غیر مہذب قانون ہے جسے فوری طورپر منسوخ کیاجانا چاہیے۔ کیونکہ یہ قانون اول تو ہندوستان کو زیب ہی نہیں دیتا کیونکہ یہ مہلک اور غیر مہذب قانون ہے دوم اس قانون کو بیشتر مواقع پر غلط طریقے سے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس قانون کے تحت فورسز کو قتل عام کی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں کی مسلمہ رائے ہے کہ افسپا جیسا کالاقانون بھارت کے جمہوری ملک ہونے کے دعوے پر ایک بدنما داغ ہے۔ اگر مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز نے آٹھ جولائی کو مجاہد کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد پر امن مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال خاص طورپر پیلٹ گن اور براہ راست فائرنگ نہ کی ہوتی تو 56قیمتی جانوں کا زیاں نہ ہوتا اور پانچ ہزار سے زائدکشمیری زخمی اور سینکڑوں عمر بھر کے لیے معذور اور بینائی سے محروم نہ ہوتے۔

بھارتی حکومت نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ ابھی تک مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں نافذ افسپا ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور گذشتہ اٹھائیس سال سے نافذ افسپا برابر لاگو رہے گا۔ بھارتی وزیر نے کہا کہ جب تک کشمیر میں ڈسٹربڈ ائیریا ایکٹ لاگو ہے تب تک افسپا ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اس بیان سے روشن ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر میں ایک غیر معینہ مدت تک بدامنی اور سیاسی بے چینی کے حالات سے نپٹنے کے لیے بدستور اس قانون کا سہارا لیتا رہے گا اور وہ اعتدال نواز آوازیں جو کالے قانون افسپا کو کشمیر سے واپس لیے جانے کے لیے مختلف گوشوں سے اٹھتی رہی ہیں، ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ان کی کوئی سنوائی ہوگی نہ پذیرائی۔

1990 میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی حکومت ہند نے جموں کشمیر کو افسپا قانون کے زمرے میں رکھا تھا۔ اس سے قبل یہ قانون بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں نافذ کیا جاچکا تھا۔یہ قانون فوج کو محض شک کی بنا پر کسی کو گرفتار کرنے، کسی کو گولی مارنے یا کسی عمارت کو بارود سے اْڑانے کا اختیار دیتا ہے۔کشمیر میں تعینات فوجی کمانڈر اس قانون کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ شمالی کمان کے سابق کمانڈر لیفٹنٹ جنرل جیسوال نے تو اس قانون کے بارے میں کہا ہے کہ یہ فوج کی ایک مقدس کتاب ہے۔لیکن انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ فوج نے اس قانون کی آڑ میں انسانی حقوق کی پامالیاں کی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بشری حقوق کے علمبردار دیگر عالمی ادارے کشمیر میں اس قانون کے تسلسل و تواتر پر انگشت بدندان ہیں۔ وہ اسے کالا قانون، لاقانونیت کا قانون، انسانی حقوق کا اَزلی دشمن، جمہوری اقدار کا مخالف جتلاتے ہیں اور آئے روز اسے کالعدم قرار دینے کی تاکیدیں اور اپیلیں کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بھارت کی سول سوسائٹی بھی مقبوضہ کشمیر میں افسپا کو انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر اسے واپس لینے کے لیے تحریری و تقریری مہمیں چلاتی رہی ہیں مگر ابھی تک وہ سب بے سْود نظر آئیں۔

اس قانون کے تحت بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں یعنی گولیاں چلانے سے سنگین نوعیت کی پامالیوں اور خلاف ورزیوں کے سلسلے میں قانونی کارروائی سے ان کو استثنٰی حاصل ہے اور اس قانون میں کسی بھی طرح کی ترمیم سے بھارتی حکومت نے دوٹوک الفاظ میں انکار کردیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ اٹھائیس برسوں میں اس قانون کی آڑ میں مقبوضہ کشمیر میں بہت زیادہ خون بہا ہے اور اس کے علاوہ کروڑوں کی جائیداد تباہ کردی گئی ہے۔

لوگوں کو اس بات کی امید تھی کہ اس قانون کے نفاذ سے کشمیری عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں ان کا احساس بھارت کو ہوگا لیکن بئی دہلی کی طرف سے اس بارے میں جو تازہ اعلان کیا گیا ان سے لوگوں کو زبردست مایوسی ہوئی ۔ماضی میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں نافذ سخت فوجی قانون کو ہٹانے کے لیے فوج اور خفیہ اداروں پر مشتمل یونیفائڈ ہیڈکوارٹرس کا اہم اجلاس مقبوضہ کشمیر کے اس وقت کے وزیراعلٰی عمرعبداللہ نے طلب کیا تھا۔اس اجلاس میں جموں کشمیر کے مختلف خطوں میں تعینات بھارتی فوج کے پانچ کمانڈروں نے افسپا ہٹانے کے فیصلے کی مخالفت کی لیکن سابق وزیر اعلیٰ نے انہیں بتایا کہ بھارت کے وزیرداخلہ نے انہیں ایسے علاقوں سے اس قانون کا نفاذ ختم کرنے کو جائز قراردیا ہے جہاں تشدد کی سطح کم ہوگئی ہے اور فوج کا کردار باقی نہیں رہا ہے۔

اجلاس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ نے سخت لہجہ میں کہا کہ کشمیر کے جن علاقوں میں فوجی کارروائیوں کی ضرورت نہیں رہی ہے، وہاں سے اس قانون کو ہٹانا اب ناگزیر ہے۔ ایسے سخت قوانین کو ختم کرنے کے لیے وہ آخری بندوق کے خاموش ہونے تک انتظار نہیں کرسکتے۔ ’پچھلے سال جب سرینگر سے چالیس سیکورٹی بنکر ہٹائے گئے تو ایسی ہی آوازیں اْٹھیں کہ اب حملے ہونگے اور بم دھماکے ہونگے، لیکن نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ وسطی کشمیر کے اضلاع سرینگر اور بڈگام کا نام لے کر کہا کہ یہاں فوج کا کوئی کردار نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ وہ کنٹرول کے قریبی اضلاع کپوارہ اور بارہمولہ اضلاع سے اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں لیکن ان کے اس مطالبہ کی مخالفت نہ صرف حکومت ہند کی وزارت دفاع نے کی ہے بلکہ مسٹر عبداللہ کی مخلوط حکومت کے بعض وزراء نے بھی اس فیصلہ کی نکتہ چینی کی ہے۔

کشمیری عوام کو ابھی بھی وہ شہری ہلاکتیں یاد ہیں جن میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ سب افسپا کی وجہ سے ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے چھترگام قصبہ میں اس وقت تین طلبہ کو محض اس وجہ سے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا گیا کہ انہوں نے اشارے کے باوجود فوری طور پر گاڑی نہیں روکی بلکہ تھوڑی دور جاکر اپنی گاڑی روکی جس پر قابض فوجی کو غصہ آیا اور اس نے تینوں نوجوانوں کو موت سے ہمکنار کردیا۔ اس واقعے پر پوری وادی کشمیر میں کہرام مچ گیا اور پولیس نے بھی کیس رجسٹر کر لیا لیکن پھر کیا تھا، کچھ نہیں جو اہلکار اس کے مرتکب ہوئے ان کو چھوا تک نہیں گیا۔

جنسی جرائم سے متعلق ریاستی حکومت نے اگرچہ قانون میں ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن وادی کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کا مانناہے کہ جب تک وردی پوش افراد کو بھی اس کے دائرے میں نہیں لایا جاتا اس وقت تک یہ مجوزہ قانون موثر ثابت نہیں ہو سکتا۔ ریاست جموں کشمیر میں آبروریزی کے قوانین میں ترمیم ایک کاغذی سرگرمی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہو سکتی کیوں کی ملک کی مختلف ریاستوں کے برعکس ریاست میں خواتین کیخلاف ہونے والے جرائم میں زیادہ عوامی سطح کا نہیں بلکہ فوجی و نیم فوجی اہلکاروں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ ریاست میں جہاں پچھلی دو دہائیوں میں عصمت دری کی شکار خواتین کو انصاف فراہم نہیں ہوا ہے وہاں نئے قانون بنانے کا کیا معنی ہوگا۔ فوجی اہلکاروں کو افسپا قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے اسی قانون کوہٹا کر اگر موجودہ قوانین کے تحت ہی ان آبروریزی کے معاملات میں ملوث اہلکاروں کو سزا دی جاتی وہی بہت تھا۔

مزاحمتی جماعتیں جو کشمیر کاز کو ایک ناقابل تردید حقیقت مانتے ہیں اور اس کا منصفانہ سیاسی حل ڈھونڈ نکالنے کے لیے متحرک ہیں۔ ان کی مستقل شکایت یہ ہے کہ بھارت کشمیر حل کے بجائے برسوں پہلے کشمیر میں افسپا کے نفاذ کر کے یہاں سات لاکھ فوجی نفری تعینات کر کے موج منا رہی ہے کیونکہ اس کی پالیسی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ طاقت کے بل پر کشمیر کاز کی آواز دبائی جائے۔ ان کا ماننا ہے کہ افسپا ننگِ انسانیت و سیاہ قانون ہے جو نہ صرف جمہوریت کی مٹی پلید کرتا جا رہا ہے بلکہ اس نے کشمیری عوام کے دن کا چین اور رات کا آرام چھینا ہوا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں