اسلاموفوبیا کا پھیلتا زہر
شیئر کریں
جاوید محمود
نو گیارہ کے بعد سے مغربی دنیا اور امریکہ کی فضا میں اسلامو فوبیا کا زہر آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ درجنوںسکھوں کو اس شک کی بنیاد پر مار دیا گیا کہ وہ بظاہر مسلمان دکھتے ہیں۔ خواتین اور مساجد بھی حملوں سے محفوظ نہ رہیں ۔اس کے اثرات کینیڈا میں بھی بڑے پیمانے پر محسوس کیے گئے۔ ان حالات میں کینیڈا کے صوبے انٹاریو کے شہر میں دہشت گردی نفرت اور مذہبی تعصب پر مبنی ایک خوفناک واقعہ 2021 کو رونما ہوا تھا جس کے اثرات آج تک میرے ذہن پر ہیں۔ اس حادثے میں چار پاکستانی شہری جان سے ہاتھ دو بیٹھے اور ایک کمسن بچہ شدید زخمی ہوا۔ یہ خوفناک واقعہ درحقیقت حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک 20 سالہ کینیڈین نوجوان ڈرائیور کی اسلامو فوبیا سوچ کا مسلمانوں سے حد درجہ نفرت کا شاخسانہ تھا۔ اس کینیڈین نوجوان نے اپنے ہر بیان میں یہ بات دہرائی کے اس کو مسلمانوں سے نفرت ہے۔ میں نے جان بوجھ کر ان پاکستانی مسلمانوں پر اپنی گاڑی چڑھائی۔ پاکستانی خاندان کے ہلاک ہونے والے چار افراد میں بچوں کی دادی بھی تھی جو پاکستان سے ملنے آئی تھی۔ اس واقعے کے وقت ان لوگوں کے ساتھ ہی چہل قدمی کر رہی تھی۔
واضح رہے کہ ستمبر 2017میں بھی اسی شہر میں ایک پال مور نامی شخص نے فٹ پاتھ پر چلنے والی پاکستانی خاتون زینب حسین پر اپنی وین چڑھا دی تھی اور ایک آٹھ سال بچی جو اسکارف باندھے اسکول جا رہی تھی، اس شقی القلب درندے نے بچی کو وین سے کچل ڈالا۔ پال مور نے بھی اعتراف کیا کہ اس کو مسلمانوں سے شدید نفرت ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا اور امریکہ میں اس نوعیت کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیںلیکن یہ دو واقعات میرے ذہن پہ نقش ہیں۔اسلاموفوبیا مغرب میں جس طرح پھیلتا دکھائی دے رہا ہے اگر یہ زہر پھیلتا رہا تو سب سے زیادہ مغربی معاشرے کے لیے خطرہ پیدا کر دے گا۔ مغرب کو قدرے سنجیدگی ، غیر جانبداری اور کھلے ذہن کے ساتھ اسلام اور اسلامی تعلیمات اور عظیم پیغمبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لینا چاہیے۔ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔ آج اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اگر درست اعداد و شمار سے دیکھا جائے تو اسلام ہی دنیاکا سب سے بڑا مذہب ہے کیونکہ عیسائیت میں مذہب کو نہ ماننے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں دو روز قبل کینیڈا میں پاکستانی نژاد خاندان کے چار افراد کو قتل کرنے والے شخص کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے اور جج نے فیصلے میں لکھا کہ مجرم کا عمل سفید فام قوم پرست دہشت گردی کے مترادف ہے ۔22 سال کے نتھنیل والٹ کو پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی جس میں چار قتل اور ایک اقدام قتل پرسزا دی گئی۔ مجرم کو جیوری نے گزشتہ سال نومبر میں مجرم قرار دیا تھا۔ مقدمے میں پیش کیے گئے شواہد کے مطابق مجرم نے اس خاندان کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے ان کی دو خواتین کو روایتی پاکستانی کپڑے پہنے دیکھ لیا تھا۔ جج پومری ینسن نے کہا کے کہ مجرم لائٹ میں اپنی جگہ ڈھونڈ رہا تھا۔جب انہوں نے اس خاندان کو نشانہ بنایا ۔لندن فری پریس اخبار کے مطابق جج نے سزا سناتے ہوئے کہا میں امید کرتی ہوں کہ خوف اور دھمکی کا احساس اس عمل کا دیر پا پیغام نہیںہو گا۔جج نے کہا والٹ نے ایسے معصوم متاثرین کو ڈھونڈا جن سے وہ پہلے کبھی نہیں ملے تھے ۔جج نے کہا وہ تمام مسلمانوں کے تحفظ اور سلامتی کو خطرے میں ڈال کر ان کے خلاف جرم کرنا چاہتے تھے ۔والٹ 25 سال تک پے رول حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ایک کینیڈین جیوری نے سفید فام قوم پرست دہشت گردی پر قانونی دلائل سنے جیوری میں اس سے پہلے ہونے والی سماعتوں میں تقریبا 70 متاثرین نے عدالت کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ کیسے اس حادثے سے وہ متاثر ہوئے ۔بہت سارے بیانات میں بتایا گیا کہ رشتہ داروں اور دوستوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ۔خاص طور پر ان کے یتیم بیٹے کا مدعیہ سلمان کی رشتہ دار سیدہ جمال نے بتایا اس دن اس بچے سے معصومیت چھین لی گئی ۔ سدرہ نے سماعت کے دوران اس خوف کے بارے میں بھی بات کی کہ اس قسم کے حملے مسلمان برادری میں عام ہو سکتے ہیں۔سدرہ نے کہا تھا کیا کوئی اور ہمیں ٹارگٹ کرے گا ۔ہمارے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنائے گا ۔ہمیں تکلیف پہنچائے گا۔ ہمیں قتل کرے گا۔ جیوری کی سماعت کے دوران قتل کیے گئے جوڑے کے بیٹے کا بیان بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ انہوں نے لکھا کہ وہ بہت دکھی ہیں کہ اب وہ اپنے اہل خانہ سے بات نہیں کر سکتے اور ان کے ساتھ مل کر ننھی یادیں نہیں بنا سکتے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ انہیں اپنی ٹانگ سے دھاتی پلیٹ اتروانی ہوگی جو بہت تکلیف دہ ہوگا اور مجھے پھر سے چلنا سیکھنا ہوگا ۔انہوں نے اپنے بیان کا اختتام تمام بچوں کے نام پیغام سے کیا ۔انہوں نے لکھا کہ اپ سوچتے ہوں گے کہ آپ کے بہن بھائی بہت تنگ کرتے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ میں بھی یمنی کے بارے میں ایسا ہی سوچتا تھا لیکن جب وہ چلے جاتے ہیں تو آپ کا دل کرتا ہے کہ اپ آخری دفعہ ان سے جھگڑاکرلیں ۔سلمان افضال کا خاندان 2007 میں اسلام آباد سے کینیڈا منتقل ہوا تھا ۔ان کے قتل نے حملے کے بعد لندن اور کینیڈا کی وسیع تر مسلم کمیونٹی میں تشویش کا اظہار کیا۔ افضل خاندان کے تابوتوں کو نماز جنازہ کے دوران کینیڈا کے پرچم میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ جنوری میں ایک بیان میں مجرم نے بولا تھا کہ ان کے قتل پر انہیں بہت افسوس ہے ۔چھ جون کے بعد کے دنوں میں مہینوں اور سالوں کے دوران میں نے اپنے اعمال کی وجہ سے ہونے والے درد اور تکلیف کو دیکھا ہے۔ عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے والٹ کے وکیل کرسٹوفر بکس نے کہا کہ انہیں دہشت گردی کے بارے میں جج کے فیصلے کی توقع تھی اور انہوں نے فیصلے کے خلاف اپیل کا امکان کھلا چھوڑ دیا۔ مقدمے میں اپنا دفاع خود کرتے ہوئے مجرم نے کہا تھا کہ سخت مسیحی پرورش نے ان پر گہرے منفی اثرات چھوڑے اور وہ ان منفی اثرات کا شکار رہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قتل سے پہلے کے دنوں میں وہ میجک مشرومز نشا اور مشروم لینے کی وجہ سے حقیقت سے کٹ گیا تھا۔ فیصلہ سناتے ہوئے جج نے ان دلائل کو مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ دلائل والٹ کے عمل کے بارے میں وجوہات نہیں بتاتے۔ انہوں نے کہا کہ والٹ نے انٹرنیٹ پر موجود مواد سے اپنا غصہ نکالا۔مجھے متعارف کیے گئے شواہد کی مدد سے بتایا گیا کہ قتل سے ایک مہینے پہلے انہوں نے ایک دستاویز پر کام کیا جس میں وہ تشدد کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور وہ نیوزی لینڈ اور ناروے میں ہونے والے قتل کے واقعات سے متاثر تھے۔ جج نے کہا کہ نفرت وسیع پیمانے تک پھیل سکتی ہے، جب مقدم وہ صرف ایک کلک کی دوری پر ہو۔جج کے فیصلے سے پاکستان کمیونٹی میں کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ سے اسلاموفوبیا کی قرارداد 15 مارچ 2021 کو منظور کرانے کاکریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں اقلیتوں کے حقوق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی ضرورت و اہمیت درحقیقت انسانی فطرت کا نتیجہ ہے۔ انسان فطری طور پر امن اور انصاف پسند ہے لیکن جب انسانیت کے دشمن نفرت کی آگ بھڑکا دے تو انسان اپنی فطرت سے ہٹ جاتا ہے۔ اہلیان مغرب بدقسمتی سے مختلف ادوار میں اپنے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں ۔ ایسا ہی پروپیگنڈا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔خصوصا ًنو گیارہ کے واقعے کے بعد اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر دکھایا گیا۔ جس کے نتیجے میں نفرت کی آگ تیزی سے پھیلی جس نے اہلیان مغرب کواسلامو فوبیا کا شکار کر دیا نتیجتاًدہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فوبیا کا مرض دراصل نیو لوجزم کی شدید شکل ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مریض کوئی اجنبی چیز دیکھ کرڈر اور خوف محسوس کرتا ہے۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف و کراہیت کو لے کر اسلامو فوبیا کا مرض شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح پرانی ہے لیکن اس کا بڑے پیمانے پہ استعمال نو گیارہ کے واقعے کے بعد دیکھنے میں آیاجس کی آڑ لے کر مغربی ذرائع ابلاغ نے اسلام کے خلاف ایک منظم مہم چلائی اور مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جانے لگا۔ قرآن مجید کے ساتھ گوانتاموبے اور ابو غریب جیل میں جو توہین آمیز سلوک کیا گیا ،وہ اسلامو فوبیا ہی کا نتیجہ تھا ۔اس کے علاوہ نیوزی لینڈ میں جس طرح مساجد کے اندر مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ تہذیبوں کے تصادم کی طرف بڑھتا ہوا قدم تھا آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور مقدس ہستیوں کے توہین آمیز خاکے بنانا بھی تصادم کی راہ کھول رہے ہیں۔موجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان گھناؤنے اقدامات کو روکنے کے لیے ہنگامی بنیاد پر اقدامات کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔