انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے
شیئر کریں
کبھی جیل کاٹی تو کبھی ظلم و تشدد سہا لیکن ہمت نہ ہاری، عوام کے مسائل اور خیالات کے ترجمان شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے۔24 مارچ 1928 کو ہوشیار پور میں پیدا ہونیوالا یہ عہد ساز شاعر تاعمر عوام کے حقوق کی آواز بلند کرتا رہا، انہوں نے صحافت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ساتھ ہی ساتھ ان کی نظمیں مختلف رسالوں اور اخباروں کی زینت بنتی رہیں۔
جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے۔۔ ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے
ہم نے اس بستی میں جالب۔۔ جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے
کئی مرتبہ جیل کاٹنے کے باجود حبیب جالب نے ہر عہد میں سیاسی و سماجی ناانصافیوں کو لفظ عطا کیے جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے، جالب نے ہر دور کے جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا، ان کے بے باک قلم نے ظلم و زیادتی، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو لکھا وہ زبان زدعام ہوگیا۔ جالب کے قلم سے ٹپکی سیاہی کا ہر قطرہ عوامی جذبات کا عکاس تھا، جالب کی انقلابی سوچ صرف شعری مجموعوں میں ہی نہیں کئی معروف فلمی نغمہ نگاری میں بھی چلی۔ حبیب جالب نے مس ففٹی سکس اور ماں بہو بیٹا سمیت مختلف فلموں کے لیے نغمہ نگاری کی لیکن فلم زرقا کے گیت ‘رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے’ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، 2008 میں حکومت پاکستان نے اس عوام دوست شاعر کو نشان امتیاز عطا کیا۔ وقت کے آمروں کو للکارنے والی ایک توانا آواز حبیب جالب 12 مارچ 1993 کو اس دنیائے فانی سے تو چلے گئے لیکن ان کی انقلابی شاعری آج بھی تازہ و معطر ہے۔