میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فارما کمپنیاں پاکستان میں ماحولیاتی قوانین کی دھجیاں اڑانے لگیں

فارما کمپنیاں پاکستان میں ماحولیاتی قوانین کی دھجیاں اڑانے لگیں

ویب ڈیسک
منگل, ۱۲ مارچ ۲۰۱۹

شیئر کریں

(جرأت انوسٹی گیشن سیل)دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی انسانی بقا کو لاحق ایک اہم خطرہ سمجھا جاتا ہے، لیکن پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں دیگر بہت سے مسئلوں کی طرح ماحولیاتی آلودگی کو بھی کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اس معاملے میں عوام کی لاعلمی اور حکومتی لاپرواہی کا فائدہ ماحولیات کے تحفظ کے ضامن سرکاری اداروں اور انہیں توڑنے والی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے مالکان اٹھاتے ہیں۔ صنعتی پیداوار میں اضافہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن صنعتی پیداوار میں اضافے سے دیگر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جن کا بالواسطہ تعلق انسانی صحت سے جڑا ہوا ہے۔


سیپا کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل صوبائی وزیر برائے تبدیلی ماحولیات کے علم میں لائے بغیرہی فارما کمپنیوں سے بالا ہی بالا معاملات طے کر کے لاکھوں روپے کے عوض سرٹیفکیٹ جاری کر نے میں ملوث، نگرانی سے عملاً لاتعلق ہیں
فارما کمپنیوں میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والاموثر جُز اور فنش پراڈکٹ دونوں ہی آلودگی کا منبع ہیں، آلودگی کی اس قسم سے ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہورہی ہے ( ایچ سی ڈبلیو ایچ)


بس فرق صرف اتنا ہے کہ کسی صنعت سے پیدا ہونے والی آبی، ہوائی اور زمینی آلودگی کم نقصان دہ ہے تو کسی صنعت سے پیدا ہونے والی آلودگی زیادہ نقصان دہ۔ دنیا بھر میں صنعتی فضلے خصوصاً ادویہ سازی کے عمل کے دوران پیدا ہونے والے فضلے کو موثرطریقے سے تلف کرنے کے لیے حکومتی سطح پر بہتر سے بہتر اقدامات کیے جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں ’چوری اوپر سے سینہ زوری‘ والا معاملہ ہے۔ یہاں ماحولیاتی قوانین کے ساتھ ساتھ ڈرگ ایکٹ کی بھی دھجیاں فخریہ اڑائی جاتی ہیں۔اگرچہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں تقریباً ہر مرحلے پر ماحولیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن پروڈکشن کے عمل میں فارما انڈسٹری سب سے زیادہ صنعتی فضلہ پیدا کرتی ہے۔ فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے پانی کی سیوریج لائنوں میں شامل ہونے والی اینٹی بایوٹک ادویات اینٹی بایوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والے پیتھوجنز کی قدرتی نشو ونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔


ڈرگ ایکٹ 1976کے شیڈول بی کے تحت کسی بھی ایسی جگہ فارما سیوٹیکل کمپنی بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جہاں اطراف میں نالے اور سیوریج لائنیں موجود ہوں، یا وہاں پہلے سے کوئی ایسی کمپنی قائم ہو جس سے نکلنے والی بدبو یا خوشبو علاقے میں محسوس کی جاسکے۔ جبکہ ڈرگ ایکٹ 1976 کے شیڈول بی کے تحت فارما سیو ٹیکل کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ اپنی کمپنی میں نکلنے والے آلودہ پانی کو کسی سیوریج لائن میں نہیں بہائیں گی، وہ ٹھوس اور آبی فضلے کو جمع کر کے ویسٹ مینجمنٹ پلانٹ میں محفوظ طریقے سے تلف یا اسے بھٹی میں جلائیں گی۔


یورپ میں فارما سیوٹیکل انڈسٹری سے پیدا ہونے والی آلودگی کو سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ’ ہیلتھ کیئر ود آؤٹ ہارم‘ ( ایچ سی ڈبلیو ایچ)کے نام سے فارما اور ماحولیات کے درمیان موجود منفی تعلق کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک مہم چلائی جارہی ہے۔ اس بابت ( ایچ سی ڈبلیو ایچ) یورپ فارما سیوٹیکل کی پالیسی آفیسر ڈاکٹرAdela Maghear کا کہنا ہے کہ ’ فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والاموثر جُز اور فنش پراڈکٹ دونوں ہی آلودگی کا منبع ہیں، اورآلودگی کی اس قسم سے ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا ہورہی ہے۔ فارما سیوٹیکل کی آلودگی انسانوں کے ساتھ جانوروں خصوصا آبی حیات کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ پاکستان میں تو فارما سیوٹیکل انڈسٹریز کی جانب سے ہونے والی خطرناک ترین آلودگی کو تو کسی گنتی میں ہی نہیں رکھا جاتا۔ ڈرگ ایکٹ 1976کے شیڈول بی کے تحت کسی بھی ایسی جگہ فارما سیوٹیکل کمپنی بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جہاں اطراف میں نالے اور سیوریج لائنیں موجود ہوں، یا وہاں پہلے سے کوئی ایسی کمپنی قائم ہو جس سے نکلنے والی بدبو یا خوشبو علاقے میں محسوس کی جاسکے۔ جبکہ ڈرگ ایکٹ 1976 کے شیڈول بی کے تحت فارما سیو ٹیکل کمپنیاں اس بات کی پابند ہیں کہ وہ اپنی کمپنی میں نکلنے والے آلودہ پانی کو کسی سیوریج لائن میں نہیں بہائیں گی، وہ ٹھوس اور آبی فضلے کو جمع کر کے ویسٹ منیجمنٹ پلانٹ میں محفوظ طریقے سے تلف یا اسے بھٹی میں جلائیں گی۔ اگر ویسٹ منیجمنٹ پلانٹ نہیں ہے تو پھر اس فضلے کو انسانی آبادی سے دور کسی محفوظ مقام پر تلف کیا جائے گا۔ لیکن کراچی کیاپورے پاکستان میں شاید ہی کوئی کمپنی ڈرگ ایکٹ کے اس شیڈول پر پورا اترتی ہوں، کیوں کہ پیسوں کی کھنک ہر کام کو آسان کردیتی ہے۔


فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے پانی کی سیوریج لائنوں میں شامل ہونے والی اینٹی بایوٹک ادویات اینٹی بایوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والے پیتھوجنز کی قدرتی نشو ونما میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یورپ میں فارما سیوٹیکل انڈسٹری سے پیدا ہونے والی آلودگی کو سنجیدگی سے دیکھا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ’ ہیلتھ کیئر ود آؤٹ ہارم‘ ( ایچ سی ڈبلیو ایچ)کے نام سے فارما اور ماحولیات کے درمیان موجود منفی تعلق کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک مہم چلائی جارہی ہے۔ 


کراچی کے نارتھ کراچی انڈسٹریل ایریا میں واقع ادویہ ساز اداروں کے محل وقوع کا جائزہ لیا جائے تو مین روڈ اور گلیوں میں بہنے والی سیوریج لائنوں کے ساتھ ہی کئی ادویہ ساز کمپنیاں نظر آئیں گی۔ جہاں ’ حفظانِ صحت اور ڈرگ اور ماحولیاتی قوانین ‘ کے مطابق ادویات تیار کی جا رہی ہوں گی۔ نیوکراچی صنعتی ایریا 12بی میں واقع کمپنی اینگلو فارما(ریکس فارما) کے ایک طرف گندہ نالہ تو کمپنی کے بالکل سامنے بھینسوں اور گھوڑوں کا اصطبل موجود ہے۔ اسی طرح کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع گیٹز فارما کے بالکل سامنے گندہ نالہ ہے اور پیچھے کی طرف سیوریج لائنز بہہ رہی ہیں۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ گیٹز فارما نے عالمی ادارے برائے صحت( ڈبلیو ایچ او) سے ایک سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا ہے ( یہ سرٹیفکیٹ کس طرح حاصل کیا گیا ہے اس کی تفصیلات جلد ہی ان ہی صفحات پر شائع ہوں گی) ہے۔ قوانین سے ردگرانی کا یہ معاملہ محض گیٹز ، ریکس اور دیگر فارما کمپنیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس قانون شکنی اور زرپرستی کے حمام میں سب ہی ننگاناچ ناچ رہے ہیں۔ تقریبا ہر دوا ساز کمپنی سندھ انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کر رہی ہے۔


قوانین سے ردگرانی کا معاملہ محض گیٹز، ریکس اور دیگر فارما کمپنیوں تک محدود نہیں بلکہ اس قانون شکنی اور زرپرستی کے حمام میں سب ہی ننگاناچ ناچ رہے ہیں۔ تقریبا ہر دوا ساز کمپنی سندھ انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اس سارے معاملے کا دلچسپ پہلو تو یہ ہے کہ ڈرگ فیکچرنگ پلانٹ لگانے کی منظوری دے دیتے ہیں۔ جسٹریشن بورڈ کے ذمہ داران بھی ’ معاملہ‘ طے کر کے کسی انسپیکشن کے بغیرہر کمپنی کو ہر جگہ مینو


اس سارے معاملے کا دلچسپ پہلو تو یہ ہے کہ ڈرگ رجسٹریشن بورڈ کے ذمہ داران بھی ’ معاملہ‘ طے کر کے کسی انسپیکشن کے بغیرہر کمپنی کو ہر جگہ مینو فیکچرنگ پلانٹ لگانے کی منظوری دے دیتے ہیں ۔ ڈرگ رجسٹریشن بورڈ اور ڈرگ ریگو لیٹری اتھارٹی کی یہ سنگین غفلت پہلے سے ہی جعلی اور غیر معیاری ادویات کے ستائے مریضوں پر ستم در ستم ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور محکمہ صحت کے علاوہ یہ ذمہ داری سندھ میں آلودگی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ادارے سندھ انوائر مینٹل پروٹیکشن ایجنسی( سیپا) پر عائد ہوتی ہے، لیکن فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی یہ مجرمانہ غفلت تو سیپا کے ڈائریکٹر جنرل نعیم مغل کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تصور کی جاتی ہے۔ نعیم مغل نامی یہ صاحب صوبائی وزیر برائے کلائمیٹ چینج اور کوسٹل ڈیولپمنٹ کے علم میں لائے بغیرہی کمپنیوں سے بالا ہی بالا معاملات طے کر کے لاکھوں روپے کے عوض سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں۔24؍ مارچ 2014کو سندھ اسمبلی میں منظورہونے والے سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014کے تحت تو شہر میں کچراجلانے پر بھی سزا تجویز کی گئی ہے لیکن اس اہم شعبے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز نعیم مغل مبینہ طور پر ’کچھ دو کچھ لو‘ کی بنیاد پر ہر ادارے کو سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس بل کی منظوری پر جاری ہونے والے نوٹی فکیشن نمبر PAS/Legis-B-06/2014- کے تحت جاری ہونے والے اس بل کے پارٹ VIIIمیں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کی ہر قسم پر جرمانے اور سزائیں تجویز کی گئی ہیں ،بل کے سیکشن ,11,17,18اور 21کے تحت کسی بھی شکل میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے فرد یا کمپنی کو سزا کے ساتھ ساتھ پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے اور اگر متعلقہ فرد یا ادارہ دوبارہ یہی جرم کرے تو پھر اس پر ایک لاکھ روپے روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ عائد کیا جائے، لیکن ڈی جی سیپا کی آنکھوں کے سامنے فارما سیوٹیکل کمپنیاں آلودگی کی بدترین شکل کو پھیلانے میں مصروف ہیں اور وہ کسی سائٹ، فیکٹری کا معائنہ کیے بغیر ’سب اچھاہے‘ کی رپورٹ بنا کر سرٹیفکیٹ جاری کر رہے ہیں۔ نعیم مغل کی ان ہی حرکتوں پر واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ امیر مسلم ہانی نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا تاہم ان کے جاتے ہی وہ اس عہدے پر براجمان ہوگئے ہیں اور پہلے سے زیادہ ’ مال ‘ بنانے میں مصروف ہیں۔ ( جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں