پاک بحریہ کی چھٹی عالمی مشقیں پاکستان دشمنوں کے لیے کھلا پیغام
شیئر کریں
پاک بحریہ کی چھٹی عالمی امن مشقوں 2017 کا آغاز ہو گیا، رواں سال کی جنگی مشقوں میں دنیا کے 35 سے زائد ممالک کی بحری افواج حصہ لے رہی ہیں۔پاک بحریہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ مشقیں 14 فروری تک جاری رہیں گی، جب کہ اس دوران عالمی میری ٹائم کانفرنس کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔ان مشقوں میں حصہ لینے کیلئے دنیا کے 71 ممالک کو دعوت دی گئی تھی۔ پاک بحریہ کے کمانڈر فلیٹ وائس ایڈمرل عارف اللہ حسینی نے’ امن مشقوں میں چین، ایران، سعودی عرب، آسٹریلیا، اٹلی، جاپان، امریکا اور روس سمیت 35 سے زائد ممالک شریک ہورہے ہیں،عارف اللہ حسینی کے مطابق ان بحری مشقو ں میںچین اور روس کے3بحری جہاز ، جبکہ دیگر ممالک کے8 بحری جہازبھی حصہ لے رہے ہیں۔بحری جہازوں کے علاوہ ان مشقوں میں 5 ممالک کے ہیلی کاپٹرز بھی شریک ہیں۔
عالمی امن مشقوں کا بنیادی مقصد پاک بحریہ کو جنگوں کی جدید ترین ٹیکنالوجی اور دنیا کے مختلف ممالک کی بحری فورس میں استعمال ہونے والے جنگی آلات اور حکمت عملی سے آگاہ رکھنا اور انھیں بھی ان کے استعمال کی عملی تربیت فراہم کرنا ہے، جیسا کہ پاک بحریہ کے کمانڈر فلیٹ وائس ایڈمرل پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ ہم ان ’امن مشقوں‘ کے ذریعے دنیا بھر کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان پرامن ملک ہے اور سمندر میں کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے دنیا کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پوری دنیا میں دہشت گردی میں اضافے کے ساتھ ہی دہشت گرد اور باغی گروپوں کی جانب سے بحری قزاقی، اسلحہ و انسانی اسمگلنگ کی بڑھتی ہوئی کارروائیوںنے بحیرہ عرب کی سیکورٹی کوانتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے جبکہ پاکستان کے قریب ترین پڑوسی ملک بھارت کے پاکستان کے خلاف ہمیشہ سے جارحانہ عزائم رہے ہیں، لیکن پاکستان ایک مضبوط قوم ہے ان مشقوں کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ پاک بحریہ کھلے سمندر میں مشقوں کے ذریعے بھارت کی فوجی اور سیاسی قیادت کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اگر بھارت جارحانہ عزم لے کر یہاں آیا تو کچھ بھی نہیں کرپائے گا۔
عالمی امن مشقوں کے دوران شرکا مختلف قسم کی ڈرلز، سمندر میں سرچ اور ریسکیو آپریشن، قزاقوں کے خلاف کارروائیوں اور میری ٹائم انسداد دہشت گردی کے مظاہروں کا مشاہدہ کریں گے۔ ‘امن-17’ مشقوں میں بحری جہاز، ایئرکرافٹ، ہیلی کاپٹر، اسپیشل آپریشنز فورسز (ایس او ایف)، ایکسپلوسیو آرڈیننس ڈسپوزل (ای او ڈی)، میرین ٹیمیں اور علاقائی اور دیگر خطوں کی بحری افواج بھی شامل ہیں ۔مشترکہ مشقوں میں آسٹریلیا، چین، انڈونیشیا، جاپان، ملائیشیا، مالدیپ، پاکستان، روس، سری لنکا، ترکی، متحدہ عرب امارات اور امریکاکی بحری افواج حصہ لے رہی ہیں، جبکہ 31 ممالک کے سفیر یہ مشقیں دیکھیں گے۔
پاکستان 2007 کے بعد سے ہر دوسرے سال امن مشقوں کا انعقاد کرتا ہے، جن کا مقصد اتحادی ممالک کی دہشت گردی اور دیگر سمندری خطرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ ان مشقوں میں پاکستان کے ساتھ شریک ہونے والے ممالک کو بحری صلاحیتوں کی عملی مشق اور اظہار کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے تا کہ وہ اپنی صلاحیتوںکو جانچ سکیں اور اس میں اضافہ کرسکیں اور امن و استحکام کے فروغ کے لیے تعاون اور دوستی قائم کریں۔
پاکستان نے عالمی امن مشقوں کا آغاز 2007 میںکیاتھا اور پہلی جنگی مشقیں 7 سے 14 مارچ کے درمیان جاری رہیں، جس میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، بنگلہ دیش اور امریکہ کی بحری فوج نے حصہ لیا۔اس حوالے سے دوسری جنگی مشقیں مارچ 2009 میں منعقد کی گئیں، جن میں جاپان، ملائیشیا، امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک کی بحری فوج نے حصہ لیا۔تیسری جنگی مشقیں 8 سے 12 مارچ 2011 کے دوران منعقد ہوئیں، ان میں اٹلی، امریکا، ملائیشیا، سعودی عرب اورفرانس سمیت دیگر ممالک کی فوج نے شرکت کی۔چوتھی جنگی مشقیں 4 سے 8 مارچ 2013 کو منعقد کی گئیں، جن میں دنیا کے 10 مختلف ممالک نے حصہ لیا،جب کہ ان میں دنیا کے مختلف ممالک کے 12 بحری بیڑوں نے بھی شرکت کی۔پانچویں جنگی مشقیں فروری 2015 میں ہوئیں، جن میں پہلی بار سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی، ان مشقوں میں دنیا کے 34 مختلف ممالک سے 60 مبصرین نے شرکت کی۔چھٹی امن جنگیں مشقیں رواں سال 14 فروری تک جاری رہیں گی،ان میں 35 سے زائد ممالک کی بحری افواج شامل ہیں۔
پاکستان کی جانب سے عالمی امن مشقوں کایہ تسلسل اور اس میں شرکت کرنے والے ممالک کی تعداد میں مسلسل اضافے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ دنیا کے سرکردہ ممالک پاک بحریہ کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی افادیت کو تسلیم کرتے ہیں، ان مشقوں کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہر مرتبہ ان میں شرکت کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافے سے لگایاجاسکتاہے ۔
امید کی جاتی ہے کہ رواں سال کی بحری مشقیں بھی گزشتہ سال کی طرح کامیابی سے ہمکنار ہوں گی،اور ان سے پاکستان دشمنوں کو یہ واضح پیغام جائے گا کہ پاک فوج کا ہر شعبہ اپنی اپنی جگہ تیاری کی انتہائی حالت میں ہے اور ہر غیر متوقع ناخوشگوار صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان مشقوں سے بھارت کو سب سے زیادہ تکلیف محسوس ہورہی ہے اور بھارتی فوجی اورسیاسی قیادت بار بار ان مشقوں کو غیر اہم ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔تاہم دانشمندی کاتقاضا یہی ہے کہ بھارتی رہنما اپنی ہٹ دھرمی کی روش ترک کرکے حقیقت پسندی اختیار کرنے پرتوجہ دیںاور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ آج کے دور میں محاذ آرائی کی پالیسی خود بھارت کی اپنی ترقی ، خوشحالی اور سلامتی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔
توقع کی جاتی ہے کہ بھارتی رہنما اپنے عوام کو جنگی بخار میں مبتلا کرکے ان کی توجہ مسائل کی جانب سے ہٹانے کی حکمت عملی ترک کرکے جنگی جنون بھڑکانے کیلئے خرچ کی جانے والی خطیر رقم عوام کی بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرکے ان کے مسائل مستقل بنیادوں پر حل کرکے حقیقی معنوں میںان کاہمدرد ہونے کاثبوت دیں گے۔