ایک مرتبہ پھر اسلحہ کی بڑی کھیپ برآمد
شیئر کریں
ریاض عاجز
کراچی کے علاقے سرجانی ٹاون میں رینجرز نے کارروائی کرکے زیر زمین دبایا گیا بھاری اسلحہ برآمدکرلیا۔کارروائی کے دوران برآمد کیے گئے اسلحے میں ایک ہیوی مشین گن،5 ایل ایم جی،4 جی تھری رائفل ،8سب مشین گنیں،4 ایٹ ایم ایم رائفل، 5 رپیٹر،6 پستول اور 5500 گولیاں بھی شامل ہیں۔ اتوار کو سرجانی ٹاون کے سیکٹر 8بی سے برآمد ہونے والے اس اسلحے کو زمین میں دباکر اوپرواش روم بنایاگیاتھا۔ اب تک آنے والی اطلاعات کے مطابق اسلحہ گرفتارملزم کی نشاندہی پر برآمد ہوا،اسلحے کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے جسے چند ماہ پہلے گھرمیں دبایاگیاتھا۔ اب یہ کراچی میں عام سی بات بن چکی ہے کہ یہاں ہر دوسرے دن زیر زمین یا کسی خفیہ مقام پر چھپائے گئے اسلحہ کی بڑی کھیپ برآمد ہو تی ہے اور ایک دو روز تک وہ میڈیا کی بڑی خبر بھی بنتی ہے اور پھر وہی خبر قصہ پارینہ بن جاتی ہے۔ چند ماہ قبل کراچی میں اب تک برآمد ہونے والی اسلحہ کی سب سے بڑی کھیپ ایم کیو ایم لندن کے مرکزی دفتر نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے ملی تھی۔یہ خبر کئی روز تک میڈیا میں گردش کرتی رہی۔ اس پر ٹاک شوز بھی ہوئے ۔ عام خیال یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ اسلحہ ایم کیو ایم لندن کا ہے تاہم عدالت میں کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکا ۔ یہ بہت حیران کن بات ہے کہ اسلحہ کی اتنی بڑی کھیپ کا یہ پتہ ہی نہیں چل سکا کہ وہ کس نے چھپایہ تھا تاہم جس پارٹی پر الزام لگایا گیا تھا ایک مرتبہ پھر اس کے خلاف عدالت میں اس کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا۔ اتوار کو سرجانی ٹاﺅن سے برآمد ہونے والے اس اسلحہ کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ اس اسلحہ کا تعلق بھی ایم کیو ایم لندن سے ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زیر حراست ملزم کی نشاندہی پر اسلحہ کی یہ کھیپ برآمد کی گئی ہے۔ اسلحہ زمین چھپانے کے بعد اس زمین پر باتھ روم بنا دیا گیا ۔ اسلحہ زیر حراست ملزم کی نشاندہی پر باتھ روم توڑ کر برآمد کیا گیا۔ زیر حراست ملزم کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے بتایا جاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن سمیت کوئی بھی جرم کرنا نہایت آسان ہے تاہم اسے ثابت کرنا ایک ایسا مرحلہ ہے کہ الزام لگانے والا آخر میں خود شرمندہ ہو کر گھر چلا جاتا ہے اور الزام ثابت نہیں ہو پاتا۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں سیاسی مقاصد کے لئے ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بھی شرمناک روایت بہت گہری جڑوں کے ساتھ موجودہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں آئے روز کسی پر الزام لگا کر اسے ساری دنیا میں بدنام کر دیا جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے اس کا نام داغ دار کر دیا جاتا ہے لیکن جھوٹا الزام لگانے والے کے خلاف عدالتوں کی طرف سے کبھی کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی جس کی وجہ سے جھوٹا الزام لگانے والوں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم لندن پر جو بھی الزامات لگتے رہے ، عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ یہ ہمارے ریاستی نظام کی کمزوری ہے یا ہمارے عدالتی نظام کی، یا پھر یہ پولیس ”پراسی کیوشن “ کی کمزوری اور مجبوری ہے۔ ہر بار عدالت میں ایم کو ایم لندن کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ ہونے سے ہمیشہ ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین ہی کو فائدہ ہوا ہے اور ان کا کراچی میں ووٹ بینک پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ اگرملک کے کسی بھی حصے میں دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کرنے سے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر ہی کو فائدہ پہنچ رہا ہو اور وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہے ہوں تو پھر اس کے دو ہی مطلب ہیں کہ یا تو اس خطے کے عوام کہ جہاں دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کیا جار ہا ہے ، وہ سارے کا سارا خطہ ہی جرائم پیشہ اور دہشتگرد ہے لہذا وہ اپنے رہنماﺅں کے خلاف کوئی بات سننا نہیں چاہتے اور آپریشن کی وجہ سے الٹا دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو ہی فائدہ ہو رہا ہے جبکہ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جن افرااد کو جرائم پیشہ اور دہشتگرد کہا جا رہا ہے ، وہ بالکل بے قصور ہیں لہذا عوام کسی قیمت پر ان کو دہشتگرد اور جرائم پیشہ ماننے کو تیار نہیں لہذا انھیں دن بدن مضبوط کر رہے ہیں۔ اس جماعت کے خلاف ہر بار عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے عوام کے لئے کوئی دوسرا پیغام ہی جنم لے رہا ہے۔ صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کراچی میںموجود قانون نافذ کرنے والے ادارے ایم کیو ایم لندن کے خلاف بڑے بڑے مقدمات بناتے ہیں تاکہ ان اداروں کی کارکردگی سامنے آئے اور سرکاری سطح پر اور میڈیا میں ان کی واہ واہ ہو، لیکن جب وہ عدالتوں میں کچھ بھی ثابت نہیں کر پاتے تو پھر عملاً بغلیں جھانکتے پھر تے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس جماعت کے چھوٹے چھوٹے جرائم بھی کہ جنھیں ثابت کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے، زیر بحث نہیں آتے اور اسے کلین چٹ مل جاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس شہر میں سیاسی جماعتوں کے لوگ ،جو آج شہر میں مختلف سیاسی نقابیں پہن کر گھوم رہے ہیں، شہر میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے جرم کے پیچھے کھڑے تھے لیکن چونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں لہذا قانون اور عوام کی نظر میں سب شریف ہیں۔ کراچی آپریشن کرنے والوں کو اگر شہر میں کوئی دائمی امن چاہےے تو انھیں اپنی پالیسی تبدیل کر کے زمینی حقائق کے مطابق حکمت عملی تیار کرنا ہو گی ورنہ یہاں ماضی میں ہونے والے آپریشنوں کی طرح یہ آپریشن بھی بے سود اور شہر کا امن عارضی ثابت ہو گا۔
٭٭