سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کر دیں
شیئر کریں
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ دو ہزار تئیس کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ پندرہ رکنی فل کورٹ نے دس پانچ کی اکثریت سے ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔ عدالتی فیصلے سے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ دو ہزار تئیس کو آئینی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججز جسٹس اعجاز الاحسن۔ جسٹس منیب اختر۔ جسٹس شاہد وحید۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر نقوی نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ تحریر کیا۔ مختصر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے قرار دیا ہے کہ ایک سو چوراسی تین کے مقدمات میں اپیل کا حق چھ نو کے تناسب سے برقرار رکھا گیا ہے۔ تاہم عدالت نے ایکٹ کے تحت ایک سو چوراسی تین کے مقدمات میں اپیل کے حق کا ماضی کی تاریخ سے اطلاق آٹھ سات کی اکثریت سے آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ فْل کورٹ نے ماضی کے مقدمات میں اپیل کی شق کو آٹھ سات کی اکثریت سے مسترد کر دیا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ دو ہزار تئیس پارلیمنٹ نے رواں سال منظور کیا گیا جس کے تحت بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس لینے اور فیصلوں کے خلاف اپیل کے سپریم کورٹ کے اختیارات میں ترمیم کی گئی تھیں۔ ایکٹ کے خلاف پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور وکلاء تنظیموں نے درخواستیں دائر کی تھیں۔ جس پر سماعت کا آغاز قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس حلف اٹھانے کے بعد کیا مقدمے کی کاروائی ٹیلی ویڑن پر براہ راست نشر کی گئی۔ درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل گزشتہ روز مکمل ہونے کے بعد آج ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے حتمی دلائل دیے۔ جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ عدالت نے مختصر فیصلہ کھلی سماعت میں سنایا جبکہ عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔