بجلی چوروں کے سہولت کاروں کے ساتھ یہ رعایت کیوں؟
شیئر کریں
سیکریٹری پاور راشد لنگڑیال نے کہا ہے کہ بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہو چکا ہے، ابھی یہ آغاز ہے، یہ بہت زیادہ بے رحم اور ناقابل معافی ہو جائے گا۔ سوشل میڈیا پر اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کہ اب تک 40 لاکھ یونٹ بجلی چوری کے 2000 سے زیادہ کیسز کا پتہ چلا ہے، بجلی چوری کے ضمن میں ایک کروڑ 10 لاکھ روپے وصول کیے جا چکے ہیں۔ بجلی چوری کے الزام میں 21 افراد کو گرفتار اور 16 کروڑ 40 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ دوسری جانب آئیسکوکے اعلان کے مطابق اسلام آباد، راولپنڈی، اٹک، جہلم، سمیت مختلف شہروں میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ان شہروں کے بجلی چور صارفین پر اب تک 75 لاکھ سے زائد کے جرمانے عائد کیے گئے۔ بلوچستان میں بھی بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں،اور 171 بجلی چوروں اور نادہندگان کے 682 بجلی کنکشنز کاٹ دیے گئے ہیں۔ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں بھی بجلی چوری پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق بجلی چوری کرنے والے افسران کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن شروع کرتے ہوئے پاور ڈویژن نے 1914 افسران کے خلاف سخت قانونی کاروائی کا آغاز کر دیا جبکہ آئیسکو کے مختلف کیڈرز کے 258 افسران کے تبادلے بھی کر دیے گئے ہیں،جبکہ آپریشن کے دوران لیسکو کے 351 اور گیپکو کے 138 افسران کے خلاف محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے اور فیسکو کے 195، آئیسکو کے 219، میپکو کے 314، پیسکو کے 299 افسران کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔پاور ڈویژن ذرائع کے مطابق ہیسکو کے 112، سیپکو کے 86، قیسکو کے 165 جبکہ ٹیسکو کے 35 افسران کے خلاف انکوائری شروع کی گئی ہے، آپریشن کے دوران 248بدنام اور منفی ساکھ کے حامل افسران کو مختلف علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بجلی چوری کے ذمہ داروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، تمام کرپٹ عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائیوں کو مزید سخت کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیز کے 2199 سے زائد بجلی چوری کے مقدمات سامنے آئے ہیں، جن میں سے 1955 کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 21 کو گرفتارکیا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈسٹری بیوشن کمپنیوں پر 4 ملین یونٹس بجلی چوری ثابت ہونے پر 164 ملین روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے،سیکریٹری پاور کاکہناہے کہ عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے بجلی چوری کی روک تھام انتہائی ضروری ہے، تمام ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے آپریشنز اور کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رہے گا۔
دوسری جانب ترجمان آئیسکو کے مطابق مختلف لیڈرز کے 258 افسران کے تبادلے کردئیے گئے ہیں۔جن میں دو چیف انجینئرز11سپرٹینڈنٹ انجینئرز باون ایکسنز 171 ایس ڈی اوز 6 ڈی سی ایم اور5 ریونیو آفیسرز شامل ہیں۔بجلی چوروں کے خلاف اس آپریشن کے دوران یہ انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر میں یومیہ ایک ارب 61کروڑ اور ماہانہ 49ارب 9 کروڑ روپے کی بجلی چوری ہورہی ہے۔ سیکریٹری پاور کے مطابق بجلی چوروں کے خلاف ایکشن آسان کام نہیں ہے۔ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فیلڈ فارمیشن بجلی چوروں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بجلی چوروں کو ملک بھر میں واپڈا اور ڈسکوز کے ملازمین اور افسران کا تعاون حاصل ہے اور وہ یہ کام اس پیسے کے لیے کرتے ہیں جو انھیں رشوت کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اگر پاؤر ڈویڑن کے ذمہ دار واقعی بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے اپنے کتنے لوگ اس کام میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کر کے ایک مثال قائم کرنا ہوگی۔ اگر اس طریقہ کو اختیار نہیں کیا جاتا تو پھر ممکن ہے وقتی طور پر بجلی چوری رک جائے لیکن مستقل بنیادوں پر ایسا نہیں ہو پائے گا۔وزیر توانائی نے بتایا ہے کہ سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے جب تک یہ چوری ختم نہیں ہوتی، بجلی کی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی چوری کی بیماری کتنے بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے اس کی روک تھام کے بغیر واقعی حالات کی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی مگر اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ اس بیماری کے ناسور کی شکل اختیار کرنے سے پہلے اس کے علاج پر توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ کیا چوری کا یہ سارا دھندہ تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکاروں کے تعاون کے بغیر ممکن ہے، اس لیے بجلی چوری روکنے کے لیے سب سے اہم اقدام ان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی پر توجہ دینا ہے۔ اگر ان سہولت کاروں اور بدعنوانی و چوری میں شراکت داروں کو نشان عبرت بنا دیا جائے تو بجلی چوری روکنے میں دیر نہیں لگے گی مگر خدشہ یہ ہے کہ چند روز تک کارروائی کا شور مچانے کے بعد پھر تمام کاروبار حسب سابق چلنے لگے گا کیونکہ اگر تقسیم کار کمپنیوں کے ذمہ دار حکام چوری اور سینہ زوری روکنے میں سنجیدہ ہوتے تو خرابی اس انتہا کو پہنچنے سے بہت پہلے چوروں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار کو پہنچایا جا تا اور اس کے لیے عوامی احتجاج، ملک گیر ہڑتال اور اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کی ہدایات کا انتظار نہ کیا جاتا۔ وزیر توانائی کا یہ ارشاد بھی حیران کن ہے کہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری روکے بغیر قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ عوام ان سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ چوری ختم کرنا وزیرتوانائی اور ان کے ماتحت محکموں کے علاوہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اگر وزیر توانائی ہی اس چوری کو روکنے کے ذمہ دار ہیں تو پھر وہ عملاً بجلی چوری روکنے کے بجائے اس طرح کی باتیں کس کو سنا رہے ہیں، اور اپنے محکموں میں بھرتی کیے کرپٹ سفارشی افسران اور عملے کی نا اہلی کی سزا غریب عام آدمی اور باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرنے والے صارفین کو آخر کیوں دی جارہی ہے؟
ایسا معلوم ہوتاہے کہ موجودہ نگراں حکمراں بھی بجلی کمپنیوں کے راشی اور کام چور افسران کی پشت پناہی کررہے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بجلی چوری میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث پائے جانے والے افسران کو ایک منٹ کیلئے محکمہ پر مسلط رہ کر بھاری تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے رہنے کی اجازت نہ دی جاتی اور انھیں بیک جنبش قلم فارغ کردیاجاتا،ان کرپٹ افسران کا تبادلہ کرنے کے معنی ان کے جرم کی پردہ پوشی اور ان کو مراعات سمیٹنے رہنے کا موقع دینے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، عین ممکن ہے کہ پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ ماند پڑتے ہی یہ افسران اپنے پشت پناہ سیاستدانوں اور بااثر اشرافیہ کے ذریعے دوبارہ اسی جگہ واپس آجائیں گے یا جہاں انھیں بھیجا گیاہے وہاں اوپر کی آمدنی کا ذریعہ پیدا کرلیں گے اور اس طرح قومی خزانے کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہے گا۔بجلی چوروں کے سہولت کار افسران اور اہلکاروں کو ان کے جرم کی سزا دینے کے بجائے ان کے تبادلے کئے جانے کے اس عمل سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت کے اس طرح کے اقدامات کی تشہیر کا مقصد عوام کے احتجاج کو سرد کرنے اور اس کا رخ موڑنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، ورنہ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ بجلی چوروں کے خلاف اس طرح کے وقتی آپریشن ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھی کیے جاتے رہے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور بجلی چوروں اور ان کے سہولت کاروں کا کام حسب معمول جاری رہتا ہے۔ بجلی چوری کا انسداد یقینا اہم ہے مگر اس مقصد کے لیے آپریشن مستقل ہونا چاہئے وقتی نہیں اور اس کا منطقی نتیجہ قوم کے سامنے آنا چاہئے دوسرا اس سے بھی اہم کام جو بجلی سستی کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے لازم ہے، وہ مراعات یافتہ بالائی طبقہ سے مفت گھر، مفت بجلی، مفت گیس، مفت گاڑی، مفت پیٹرول، سرکاری تنخواہ پر ڈرائیور، خانساماں اور درجنوں کے حساب سے خدمت گاروں کی سہولتوں کی واپسی ہے۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ ان مفت سرکاری سہولتوں کو ”مال مفت، دل بے رحم“ کے مصداق نہایت بے دردی سے استعمال کرتا ہے۔ اگر ان سہولتوں کا خرچ ان لوگوں کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑے تو بجلی، گیس، پٹرول اور اسی نوع کی دیگر مدات پر اٹھنے والے اخراجات موجودہ سطح سے کئی گنا کم ہو جائیں مگر حیران کن امر یہ کہ حکومت اس اصل ضروری اور نتیجہ خیز اقدام کی طرف پیش رفت پر قطعی تیار نظر نہیں آتی آخر کیوں جہاں تک بجلی کی قیمتوں میں کمی کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن اور ان سے کروڑوں روپے کی وصولی کے باوجود نگراں حکام مظاہرین کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بجلی کے بلوں پر ٹیکس میں ابھی کمی نہیں کر سکتے کیونکہ اس قسم کی کوئی بھی حرکت آئی ایم ایف کو مایوس کرے گی اور بیل آؤٹ پیکج ڈیل کے بعد کی قسط کے مناسب وقت پراجرا کو خطرے میں ڈال دے گی۔ پاکستان کی بجلی کی معاشیات مکمل طور پر غیر پائیدار ہے اور گردشی قرضہ تیزی سے بڑھ کر 2.6 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس ایڈجسٹمنٹ کی لاگت غیر متناسب طور پر معاشرے کے غیر اشرافیہ، تنخواہ دار طبقے ہی کو برداشت کرناہوگی کیونکہ اشرافیہ کے لیے پارٹی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ اسٹینڈ بائی معاہدہ پاکستان کے مسائل کا خاتمہ نہیں ہے۔ یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں، پاکستان کو چلانے کے لیے تقریباً 32 ارب امریکی ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ اس قرض کے سروس چارجز کے لیے تقریباً 25 بلین امریکی ڈالر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 7 بلین امریکی ڈالر شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان اس وقت 125 بلین ڈالر کا بیرونی قرضوں کا مقروض ہے، جس میں سے تقریباً 25 فیصد چین کی امداد سے مشترک ہے۔ اگر پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے تو مغرب چینی قرضوں پر الزام عائد کرے گا۔ اس صورت میں، پورا بی آر آئی متاثر ہو سکتا ہے۔اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کی ناقص ٹیون فائل پر اپنے مسائل سے آگاہ کیا ہے اور فنڈ کے لیے اپنے وعدوں کو خوش آئند قرار دیا ہے، اور حکومت کو نئے پروگرام مکمل کرنے کے لیے خبردار کیا ہے۔ کیونکہ قرض دہندہ نے متنبہ کیا ہے، اسلام آبادکا اصلاحات کے حوالے سے ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان یہ ریکارڈ بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے، نہیں تو دوسری قسط کا معاملہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔یہ تقریباً واضح ہے کہ پاکستان کو اگلے سال ایک اور طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام کے لیے جانا پڑے گا۔ ان پروگراموں کے مشروط تعلقات آخری پروگراموں سے بھی زیادہ سخت ہونے کا خطرہ ہے۔