شہباز شریف کاقریبی معاون سابق پولیس افسر ٹیکس محتسب بنادیاگیا!
شیئر کریں
ٹیکس محتسب کے عہدے پرہمیشہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کوہی فائزکیاجاتاہے اس بار قرعہ فال ایک پولیس افسرکے نام نکلا
وزیرخزانہ اسحاق ڈار، ظفر الحق حجازی کو وفاقی ٹیکس محتسب بنانا چاہتے تھے لیکن وزیراعلی پنجاب کے سامنے ان کی ایک نہ چلی
مشتاق سکھیراکو ڈاکٹرطاہرالقادر ی کے دھرنے کے دوران پولیس کوکھلی چھوٹ دینے کے انعام کے طور پرعہدے سے نوازاگیا
شہلا حیات نقوی
اخباری اطلاعات کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین نے ایک سابق پولیس افسر مشتاق احمد سکھیرا کو4 سال کی مدت کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب مقرر کرنے کی منظوری دیدی ہے اور وفاقی وزارت قانون اور انصاف نے اس کانوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔ایک سابق پولیس افسر کی وفاقی ٹیکس محتسب کے عہدے پر تقرری کو ایک باورچی کو ایروناٹیکل انجینئر کے عہدے پر فائز کرنے کے مترادف ہی تصور کیاجارہاہے کیونکہ کسی پولیس افسر سے کاروباری حساب کتاب کے معاملات میں مہارت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس طرح مشتاق احمد سکھیرا اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود ٹیکس کے معاملات سے یقینا قطعی نابلد ہوں گے نہ کہ ٹیکسوں سے متعلق تنازعات کا تصفیہ کرانا اور اس حوالے سے فیصلے کرنا ۔یہ ایک عام فہم بات ہے کہ جس شخص کو ٹیکس کے معاملات کا ہی مکمل علم نہ ہو وہ ٹیکس معاملات پر تنازعات کا فیصلہ کس طرح کرسکے گا؟
مشتاق احمد سکھیرا کا شمار پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران میںہوتاہے وہ اس سے قبل پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر فائز تھے اور اپریل ہی میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے ، ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے قریبی معاونین میں شامل تھے اورپنجاب میں شہباز شریف کے مخالفین کو منہ بندرکھنے پر مجبور کرنے کافن جانتے تھے اور انھوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے حکومت کے خلاف دیے گئے دھرنے کوناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا اور انھوں نے دھرنا دینے والے طاہرالقادری کے کارکنوں سے نمٹنے کے لیے پولیس کو مکمل چھوٹ دیدی تھی اور اسی چھوٹ کے نتیجے میں پولیس نے ماڈل ٹائون میں مبینہ طورپر براہ راست فائرنگ کرکے بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک اور زخمی کردیاتھا جس کے مقدمات ابھی تک عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور جس کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے سے مسلسل گریز کیاجارہاہے۔
یہ بھی معلوم ہواہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین ظفر الحق حجازی کو وفاقی ٹیکس محتسب بنانا چاہتے تھے لیکن شہباز شریف کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور اس طرح ایک ریٹائر پولیس افسر وفاقی ٹیکس محتسب کے عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
وفاقی ٹیکس محتسب کے عہدے کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اس سے قبل تک اس عہدے پر ہمیشہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان ہی کو فائز کیاجاتاتھا۔وفاقی ٹیکس محتسب کا یہ عہدہ پارلیمنٹ کی منظوری سے ایف بی آر کے احکامات اور ایف بی آر کے افسران کے فیصلوں سے متاثر ہونے والے ٹیکس دہندگان کی داد رسی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔اس عہدے پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری کی وجہ سے اس پر ٹیکس دہندگان کا اعتماد قائم ہواتھا جس کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ 2سال کے دوران 3 ہزار417 ٹیکس دہندگان نے ایف بی آر کے حکام کے فیصلوں کے خلاف وفاقی ٹیکس محتسب کی عدالت میں شکایات درج کرائیں اور اس کے نتیجے میں ایف بی آر سے زیادہ وصول کردہ 5 ارب روپے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔گزشتہ 8 سال کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب حکومت نے ایک انتہائی تکنیکی نوعیت کے عہدے پر ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کوتعینات کیا ہے، اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے سابق پولیس افسر اورمرتضیٰ بھٹو کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے اہم کردار شعیب سڈل کو بھی اس عہدے پر فائز کردیاتھا۔شعیب سڈل کے عہدے کی میعاد پوری ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایک بیوروکریٹ رئوف چودھری کو اس عہدے پر فائز کردیاتھا اور ان کے عہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد اب شہباز شریف کے چہیتے سابق پولیس افسر کے نام لاٹری نکل آئی ہے۔اس سے قبل یہ عہدہ ہمیشہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان کے پاس رہا اور جسٹس ریٹائرڈ سلیم اختر اورجسٹس ریٹائر ڈ منیر اے شیخ وفاقی ٹیکس محتسب کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔
سیاسی بنیادوں پر وفاقی ٹیکس محتسب کا تقر ر شروع کیے جانے کے بعد اس حوالے سے متعدد مرتبہ یہ شکایات سامنے آئیں کہ وفاقی محتسب وزارت خزانہ کی ہدایات اوراشاروں پر کام کرتے ہیں اور فیصلے دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وفاقی ٹیکس محتسب کی ویب سائٹ سے وہ رپورٹیں بھی جبری طورپر ہٹائی گئیں جن سے ظاہرہوتاتھا کہ وفاقی وزیر خزانہ نے ٹیکس دہندگان کو واپس کی جانے والی جائز رقم کو زبردستی روک رکھا ہے۔
مشتاق احمد سکھیرا سے جب ان کے تقرر کے حوالے سے بات چیت اور اس حوالے سے ان کاموقف معلوم کرنے کے لیے صحافیوں نے رابطہ کیاتو انھوں نے کہا کہ ابھی میرے تقرر کو چند ہی دن ہوئے ہیں میں اس حوالے سے بعد میں بات کروں گا۔
اپریل 2017 میں ریٹائر ہونے والے عبدالرئوف چوہدری نے اپنی آخری رپورٹ میں لکھاتھا کہ ہمارے ملک کی مخصوص صورت حال کے تحت مختلف وجوہات کی بنا پر انصاف کی فراہمی بہت ہی مشکل اور پیچیدہ کام بن چکاہے۔ ان میں لوگوں میں مہارت کی کمی اور قانون سے عدم واقفیت شامل ہے۔ انھوں نے لکھاتھا کہ وفاقی ٹیکس محتسب کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکس وصولی کے ایکٹ 1931 کی تمام شقوں،کمرشیل ڈاکومنٹس ایویڈنس ایکٹ ،سینٹرل ایکسائز ایکٹ ،کسٹمز ایکٹ 1969 ورکرز ویلفیئر فنڈز آرڈیننس ،اسمگلنگ کی روک تھا م کے ایکٹ 1977 ،انکم آرڈی ننس 2001 سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور دیگر تمام قوانین سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو۔