ہاکس بے پر12 افراد کی المناک موت
شیئر کریں
کراچی کا سمندر ایک بار پھر 12افراد کی جان لے گیا۔ ان سب کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔شہر قائد کے ساحل ہاکس بے پر پکنک منانے والے 12 افراد ڈوب گئے ۔ ریسکیو ٹیموں نے سمندر کی لہروں کی نذر ہونے والے تمام افراد کی لاشیں نکال لی ہیں۔ ڈوبنے والے زیادہ تر افراد نے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں جان کی بازی ہاری۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ہاکس بے کے قریب 12افراد کے ڈوبنے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب سمند ر میں نہانے پر دفعہ 144کا نفاذ کیا گیا تھا تو سمندر پر نہانے والوں کی رہنمائی کے لیے ساحل پر سائن بورڈ یا انتظامیہ تھی یا نہیں، اس کی تحقیقات کی جائے گی۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے متعلقہ ڈی آئی جی سے واقعے کی مکمل تفصیلات اور اس تناظر میں پولیس کی جانب سے ریسکیو اقدامات پر مشتمل رپورٹ فوری طور پرمانگ لی۔ واقعے پر جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سراج الحق،پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری، وزیرداخلہ سہیل انور سیال، میئر کراچی وسیم اختر ودیگر نے اظہار افسوس اور تعزیت کیا۔
شہر قائد میں گرمی کی شدت میں اضافے سے تنگ آکر شہری ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں لیکن اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کئی منچلے سمندر کی موجوں کے مزے لوٹتے آگے بڑھ جاتے ہیں اور جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں جبکہ ان کے ساتھی اور رشتہ دار ان سے محبت میں ان کو ڈوبنے سے بچالینے کے جذبے کے تحت سوچے سمجھے بغیر سمندر میں کود پڑتے ہیں، اس طرح اپنے عزیزوں،اپنے پیاروں اور دوستوں کے ساتھ خودبھی موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اب تک اس طرح کے واقعات میں سینکڑوں افراد ڈوب کر اپنی زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ ماڑی پور تھانے کی حدود میں واقع ہاکس بے سیتا ویلیج کے ساحل پر بھی نارتھ کراچی اور ناظم آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے افراد پکنگ منانے آئے تھے ، سمندر میں نہاتے ہوئے ان میں سے 3 افراد ڈوب گئے۔ اپنے پیاروں کوڈوبتا اور جان بچانے کے لیے ان کی آہ وبکا سے بیتاب ہوکر انھیں بچانے کے لیے دیگر افراد بھی سمندرکے گہرے پانی میں چلے گئے اور 12 افراد سمندر کی تیز لہروں کی لپیٹ میں آگئے۔ فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ لائف گارڈز نے10افرادکی لاشیں نکال لی ہیں جبکہ ماہر غوطہ خوروں نے بے ہوشی کی حالت میں 3 افراد کو زندہ نکال لیا۔ حکام کے مطابق نکالی جانے والی لاشوں میں 2 خواتین اور 2بچے بھی شامل ہیں۔ڈوبنے والوں میں 25سالہ علی نور، 28سالہ وہاج شہزاد، 30سالہ عمیر جمیل، 50سالہ سعود شعیب، 20سالہ طحہٰ منہاج، 30سالہ عاطف نسیم، 12سالہ حمزہ، 13 سالہ عباد سعود، 26علی ضمیر، 30سالہ وقار یوسف، 23سالہ عمار جمیل اور 12سالہ فلزہ دختر سعود شامل ہیں۔
اس المناک واقعے کے بعد معمول کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ ، وزیر داخلہ اور آئی جی سندھ نے متعلقہ حکام سے پولیس کی جانب سے ریسکیو اقدامات پر مشتمل مکمل تفصیلات اور رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ جب سمندر میں نہانے پر دفعہ 144کا نفاذ کیا گیا تھا تو سمندر پر نہانے والوں کی رہنمائی کے لیے ساحل پر سائن بورڈ یا انتظامیہ تھی یا نہیں؟ یہ واقعہ کیسے پیش آیا، تفصیلات کے ساتھ رپورٹ دیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ہاکس بے پر ڈوبنے والے افراد کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ واقعے سے شدید صدمہ پہنچا۔ وزیرداخلہ سندھ سہیل انور خان سیال نے ایڈیشنل آئی جی کراچی کو فوری طور پر ریسکیو اقدامات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے۔وزیر داخلہ نے بھی حسب معمول اس واقعے کے بعد ایک حکم نامہ جاری کیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے۔ عوام کو سمندر میں نہانے سے روکنے کے لیے تھانوں کی سطح پر خصوصی اقدامات کیے جائیں۔میئر کراچی وسیم اخترنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سمندر میں نہانے پر دفعہ 144 کے تحت حکومت سندھ نے پابندی عائد کی ہوئی ہے تاہم انتظامیہ کی جانب سے اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے ساحلی تفریحی مقامات پر فوری اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج 30 لائف گارڈز مبارک ولیج سے ہاکس بے تک اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور حادثے کی اطلاع ملتے ہی لائف گارڈز نے قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تاہم ڈوبنے والے اشخاص بھنور میں پھنس جانے کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ سمندر میں نہانے سے گریز کریں۔
گرمی کی شدت سے گھبرا کر یا چھٹی کے دن پکنک منانے کے لیے سمندرپر جانا پوری دنیا کے ساحلی شہروں کے باشندوں کامعمول ہے اور اسی معمول کے مطابق حادثے کا شکار یہ بدقسمت خاندان بھی پکنک منانے ہاکس بے گیا تھا ،اب ان گھروں میں کہرام بپا ہے۔
ساحلوں پر ایک عرصے سے دفعہ 144نافذ ہے اور ذرائع ابلاغ سے بار بار یہ انتباہ کیا جاتا رہا ہے کہ سمندر میں نہ اترا جائے۔ کراچی کا سمندر نہانے اور تیرنے کے لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔ اس کی بپھری ہوئی لہریں متعدد بار قیمتی انسانوں کو نگل چکی ہیں۔ لیکن وقفے سے وقفے سے ہونے والے اس طرح کے واقعات کے باوجود لوگ سمندر میں اُترنے سے باز نہیں آتے۔ ہاکس بے کاسانحہ یقیناًشدید ہے لیکن اسے کوئی اتفاقی حادثہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس حادثے کا شکار ہونے والے خاندان کے لوگ اتنے ان پڑھ نہیں تھے کہ یہ کہا جاسکے کہ انھیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ سمندر میں اترنے کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے ،بپھرے ہوئے سمندر سے اٹھکیلیاں کرنے کا واضح مطلب موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتاہے۔ عموماً نوجوان یہ کہتے ہیں کہ سمندر ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن پرسکون سمندر اچانک بپھر جاتا ہے اور صرف ایک ہی زبردست لہر پیر اکھاڑ دیتی ہے۔ ایسے ہر سانحے پر انتظامیہ پر لعن طعن کی جاتی ہے، اس طرح کے واقعے پر انتظامیہ پر لعن طعن کرنا کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ یہ بہرحال انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر انتظام کرے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ انتظامیہ بار بار انتباہ جاری کرچکی ہے کہ عوام سمندر میں اُترنے سے گریز کریں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنے طویل ساحل پر نظر رکھنا آسان نہیں ہے۔لائف گارڈ یا تجربہ کار غوطہ خور بھی ہر جگہ تعینات نہیں کیے جاسکتے۔ لوگوں کو خود ہی خیال رکھنا چاہئے کہ جان بوجھ کر موت کے منہ میں نہ اتریں لیکن تواتر کے ساتھ اس طرح کے واقعات سے یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ انتظامیہ نے کراچی کے ساحل پر لوگوں کی حفاظت کے لیے جو غیر تسلی بخش اور غیر موثر انتظامات کررکھے ہیں ، خود ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کابھی کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے ساحل پر لوگوں کی رہنمائی اور انھیں سمندر میں اترنے سے روکنے کے لیے تعینات کیے جانے والے پولیس اہلکار اپنا اصل فریضہ نظر انداز کرکے ساحل پر تفریح کے لیے آنے والوں اور مختلف اشیاء فروخت کرنے کے لیے ساحل پر آنے والوں سے نذرانے وصول کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، ان کاکام لوگوں خاص طورپر نوجوانوں کو روک کر اور انھیں ڈرادھمکا کر ان کی جیبیں خالی کرانا رہ گیا ہے ۔دوسری جانب ساحل پر ڈوبنے والوں کو بچانے اور ان کی مدد کے لیے تعینات کیے جانے والے لائف گارڈز کی اکثریت بھی اپنی ڈیوٹی پر موجود رہنے کے بجائے اپنے گھروں پر آرام کرنے یا دیگر مصروفیات میں مشغول رہتے ہیں۔ اس لیے حادثے کی صورت میں بروقت جائے حادثہ پر نہیں پہنچ پاتے۔ جس کی وجہ سے بہت سی ایسی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں بروقت مدد کے ذریعے جن کو بچایا جاسکتاہے ۔ کراچی کے ساحل پر لوگوں کے ڈوب جانے کے واقعات تسلسل کے ساتھ سامنے آرہے ہیں لیکن پھر بھی نہ تو ساحل پر پکنک منانے یا تفریح کے لیے آنے والے لوگ ہوش میں آتے ہیں اور نہ ہی انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو تیار ہے۔ ایسی صورت میں یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ خدا کرے کہ اس سانحے کے بعداس شہر کے لوگوں اور انتظامیہ کو ہوش آجائے اور پھر کوئی سانحہ رونما نہ ہو۔