میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت میں مذہبی فسادات کی بھرمار

بھارت میں مذہبی فسادات کی بھرمار

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۱ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارت جیسے ثقافتی اور لسانی طور پر متنوع ملک میں مذہب کی چنگاری بہت تیزی سے فرقہ ورانہ فسادات پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔ اس ملک میں کئی طرح کی مذہبی اور ثقافتی کشیدگیاں اور تناؤ پائے جاتے ہیں۔ فسادات کو ہوا دینے اور کشیدہ صورتحال کو قابو سے باہر ہونے میں عموماً سیاست کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں مذہبی اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ دیگر عقیدوں سے تعلق رکھنے والے بھارتی باشندوں کو بھی اپنی سیاسی چال بازیوں کا حصہ بنانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اس تصور کا ناجائز فائدہ اْٹھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے ووٹرز ہی دراصل ملک میں ایک لچکدار سیاسی نظام کی وجہ بنتے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری ہیں۔ کئی مکان منہدم کر دیئے گئے ہیں ۔ ہندو انتہا پسند وں نے مہاراشٹر میں عالم دین مفتی شاہ اور امام مسجد حافظ زبیر پر تشدد کیا۔ آسام میں مسلمانو ں کے مکان مسمار ، بستی اجاڑ دی۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے بعد سے مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بھارتی ریاست آسام میں ضلع موریگائوں کے علاقے شیل بھنگ کے مسلمانوں کو بی جے پی کو ووٹ نہ دینے کا خمیاز دہائیوں قبل تعمیر کئے گئے اپنے مکانات اپنی آنکھوں کے سامنے منہدم ہوتے دیکھ کربھگتنا پڑ رہا ہے۔ انتظامیہ نے گزشتہ دنوں پہاڑی علاقے میں بسائی گئی بستی کو اجاڑ دیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ بستی ریلوے کی زمین پر غیر قانونی طور پر بسائی گئی ہے لیکن انتظامیہ نے اس بستی میں صرف مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کیا جبکہ ہندوئوں کے ایک بھی مکان کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ یہاں تک کہ علاقے کے برسوں پرانے مدرسے کو تو زمین بوس کردیا گیا لیکن اس کے قریب ہی واقع کالی مندر کو چھوڑ دیا گیا۔ انتظامیہ کی اس کارروائی سے تقریبا آٹھ ہزارافراد بے گھر ہوئے ہیں۔
شیل بھنگ گائوں میں ریلوے کی جس زمین کی بات کی جارہی ہے وہاں تقریبا 40سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے لوگ آباد ہیں۔ یہ بستی مسلم اکثریتی ہے لیکن یہاں پر ہندو برادری کے افراد بھی آباد ہیں۔ اس بستی کو ہندومسلم اتحاد کی مثال بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اتنے برسوں سے یہا ں سے کبھی کسی تصادم کی خبر نہیں آئی۔ علاقے میں آباد17سالہ ممونی بیگم نے جن کے مکان کو بھی زمیں بوس کیا گیا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزشتہ ایک ہفتے سے کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں کیوں کہ انتظامیہ نے ان کا پکا مکان توڑ دیا۔ ممونی بیگم کے مکان کے قریب ہی رہنے والے52سالہ ابوقاسم نے بتایا کہ انتظامیہ کی کارروائی سے بالکل واضح ہو گیا کہ انہوں نے صرف بنگالی نسل کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے جبکہ بنگالی ہندوئوں کو کچھ بھی نہیں کہاگیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی گوہاٹی ہائی کورٹ کی جانب سے اسٹے آرڈر کے باوجود کی گئی ہے یعنی ہیمنت بسوا حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہوئی ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ پرودیوت بورڈولوئی نے بتایا کہ یہ کارروائی صرف اس لئے کی گئی کیوں کہ پارلیمانی انتخابات میں مقامی مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔ بی جے پی حکومت ان سے اسی کا انتقام لے رہی ہے۔ بی جے پی کے کئی لیڈر یہ بات بار بار دہرارہے ہیں کہ آسام میں بی جے پی کو سیٹیں نہ ملنے کا سبب یہاں کے مسلمان ہیں، اسی لئے یہ کارروائی کی جارہی ہے۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کی ہندوتوا حکومت نے اپنی ایک اور متعصبانہ اور اسلام دشمن کارروائی میں مسجد طاہرہ اور گلشن احمد رضا مدرسے کو شہید کردیا۔ ممبئی کی گھاٹ کوپر اندھیری گلی میں پولیس اور بلدیاتی حکام نے سخت سکیورٹی حصار میں ایک مسجد اور ایک مدرسے کو ترقیاتی کاموں کی آڑ میں مسمار کیا۔ مسجدِ طاہرہ اور گلشنِ احمد رضا مدرسہ 30 سال سے اس علاقے میں قائم ہیں تاہم اچانک ممبئی انتظامیہ نے نوٹس بھیجا کہ یہ دونوں مقامات سڑک کے توسیع کے منصوبے کے درمیان آرہے ہیں۔ دوسری جانب مسجد اور مدرسہ کے ٹرسٹی منصور شیخ نے بتایا کہ مسجد کمیٹی نے لنک روڈ کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے دوران ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سے قانونی تحفظ حاصل کر رکھا تھا۔ تاہم ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے مسجد کمیٹی کے قانونی موقف اور علاقہ مکینوں کی گزارشات کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے مسجد اور مدرسے کو شہید کردیا۔اس کے علاوہ بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع کپورتھلہ میں ہندوتوا کارکن کی طرف سے سکھوں کے مشہورگوردوارے کی بے حرمتی کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ واقعہ ضلع کے علاقے پھگواڑہ میں چھوی پات شاہی گوردوارہ میں پیش آیا۔ ہندوتوا کارکن کو سکھ عقیدت مندوں نے گردوارے کی بے حرمتی کرنے پرقتل کر دیا ہے۔
بھارت کی انتہا پسند حکمراں جماعت کے ایک سرکردہ لیڈر نے متنازع زمینوں پر بنی ہوئی مساجد خالی نہ کرنے پر مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی تمام مساجد خالی کردیں جو مبینہ طور پر مندر توڑ کر بنائی گئی تھیں۔ایشورپا پہلے بھی متعدد مواقع پر مسلمانوں کو مساجد خالی کرنے کا ”حکم” دے چکے ہیں۔ اتوار کو بیلاگاوی میں ہندو ورکرز کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر مسلمانوں کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔بھارت کی ریاست جھارکھنڈ میں ہندو انتہاپسندوں نے ایک مسجد کے قریب میدان میں قرآن پاک کے اوراق کی بے حرمتی کرکے ان کو نذر آتش کردیا۔مقامی صحافیوں نے بتایاکہ یہ آئندہ ریاستی انتخابات سے قبل مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں