میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جائو میئر اب جان چھوڑو شہر کی، چیف جسٹس

جائو میئر اب جان چھوڑو شہر کی، چیف جسٹس

ویب ڈیسک
منگل, ۱۱ اگست ۲۰۲۰

شیئر کریں

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جا، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بل بورڈ گرنے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے مئیر کراچی، جس پر میئر کراچی نشست سے کھڑے ہوئے تو چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ جا بھائی اب جان چھوڑو، اس شہر کی، لوگوں نے ووٹ دیا تھا کہ کراچی کے لئے کچھ کرے گا، میئر کراچی بھی شہر سے دشمنی نکال رہے ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی کی تمام شاہراہوں سے تمام بل بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں حکومت اورسندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں،چیف جسٹس گلزار احمدخان نے میئر کراچی کو چھاڑ پلا دی جبکہ کرنٹ لگنے کے واقعات پرسی ای او کے الیکٹرک کو فوری طلب کرلیا ۔پیر کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کراچی کے بلدیاتی مسائل اور تجاوزات سمیت غیر قانونی بل بورڈ گرنے کے واقعے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، کمشنر کراچی، مئیر وسیم اختر،ایڈووکیٹ جنرل سندھ، اورایس ایس پی سائوتھ سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس گلزار احمد نے اداروں کی ناقص کارکردگی پر شدید اظہار برہمی کا اظہار کیا۔ دوران سماعت انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، سب سے زیادہ بل بورڈز رہائشی عمارتوں پر لگے ہیں۔ شارع فیصل پر عمارتیں دیکھیں اشتہار ہی اشتہار لگے ہیں ، وہاں لوگ کیسے جیتے ہوں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پورے شہر میں بل بورڈ لگے ہوئے ہیں،ہر جگہ آپ کو بل بورڈز نظر آئیں گے، اگر یہ بل بورڈ گر گئے تو بہت نقصان ہوگا، عمارتوں پر اتنے بل بورڈز لگے ہیں کہ کھڑکیاں بند ہوگئی ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت کا کام ہے کہ بلڈنگ پلان پر عمل کرائے لیکن یہاںحکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے ، اگر کسی کے پاس پیسے ہیں تو وہ سب کر لیتا ہے، ہرآدمی خود مارشل لا بنا بیٹھا ہے،سندھ حکومت کی رٹ کہاں پر ہے؟وکیل ڈی ایم سی نے عدالت کو بتایا کہ لوگ اپنے گھروں پر بل بورڈ لگا دیتے ہیں، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ 5سال کی تحقیقات کراتے ہیں کس نے بل بورڈز لگائے۔چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سے سوال کیا کہ کوئی ہے جو اس شہر کو صاف کرے؟آپ کا آنا جانا اس جگہ سے ہے جہاں شہر صاف ہوتا ہے، یہاں بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، میری گاڑی کا پہیا بھی گٹر میں چلا گیا تھا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوب رہے ہیں ، میری اپنی گاڑی کا پہیہ بھی گٹر میں پھنس گیا، کون ذمہ دار ہے اس صورتحال کا ؟، کون ذمہ دار ہے ٹوٹی سڑکوں ، کچرے اور اس تعفن کا ، یہ بھی آپ لوگوں کا شہر ہے، مجھے تو لگتا ہے کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے، لگتا ہے صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کی شہر سے دشمنی ہے ، کراچی کو بنانے والا اب تک کوئی نہیں آیا ،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جاو، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے میئر کراچی سے سوال کیا کہ آپ کب جائیں گے میئر کراچی وسیم اختر نے جواب میں کہا کہ 28اگست کو مدت ختم ہوگی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جاو، جان چھوٹے شہر کی، مستقل کراچی کے میئرز نے شہر کو تباہ کر دیا ہے، کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں جیب بھر کر چلے جاتے ہیں شہر کیلئے کوئی کچھ نہیں کرتا۔ وزراء بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں ، وزیر اعلی صرف ہیلی کاپٹر پر چکر لگاتے ہیں کرتے کچھ نہیں ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں بجلی کا بحران بھی بدترین ہوگیا ہے،سب ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہیں ، روز آٹھ دس لوگ مر رہے ہیں اور نیپرا کچھ نہیں کر رہی ہے ، کراچی کی بجلی بند کرتا ہے اس کو بند نہیں کرنے دیں گے ، جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہ کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں، بجلی والوں نے باہر کا قرضہ کراچی سے نکالا ہے۔ ہر فرد جو جاں بحق ہوتا ہے اس کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیئے اور نام ای سی ایل میں ڈالیں۔عدالت نے ایس ایس پی سائوتھ استفسار کیا کہ ملزمان کہاں ہیں جن کی غفلت سے بل بورڈز گرا اور موٹر سائیکل سوار زخمی ہوئے۔ایس ایس پی سائوتھ نے عدالت میں جواب دیا کہ ملزمان کو ڈھونڈ رہے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان سمندر کے نیچے گئے ہیں؟ سپریم کورٹ نے ایس ایس پی سائوتھ کو حکم دیا کہ ملزمان کو آدھے گھنٹے میں ڈھونڈ کرلا۔معزز جج نے کمشنر کراچی کیساتھ مکالمے میں کہا کہ آپ کے شہر میں ہر جگہ بل بورڈز لگے ہیں۔ لوگ پبلک پراپرٹی کا نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ذمہ داران کے خلاف کیا کیا گیا جو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے؟کمشنر کراچی نے جسٹس اعجاز الاحسن کوجواب دیا کہ یہ ایک مافیا ہے اور بہت سارے ادارے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی سے مکالمہ میں کہا کہ سب کو فارغ کریں ،آپ کے پاس اختیار ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں