عمران خان کی گرفتاری: حکومت، اپوزیشن دونوں کو تحمل سے کام لینا چاہئے
شیئر کریں
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ایک روحانی اور صوفی ازم پر یونیورسٹی قائم کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعدپورے ملک میں شدید ہنگامہ آرائی جاری ہے،صورت حال کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق شہر میں کسی بھی مقام پر تحریک انصاف کے کسی سطح کے قائدین نظر نہیں آئے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی قیادت کے اس الزام میں بظاہر یہ صداقت نظر آرہی ہے کہ حکمران تحریک انصاف کوشرپسند اور دہشت گردجماعت قرار دے کر تحریک انصاف کو کالعدم قرار دلواکر انتخابات سے باہر کرکے من پسند نتائج حاصل کرسکیں۔ عمران خاں کی گرفتاری ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے۔معاشی عد م استحکام نے غریب آدمی سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے،ان حالات میں سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر ملک کے سیاسی اور معاشی حالات کوٹھیک کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے تھی تاکہ ملک میں سیاسی استحکام سے معاشی حالات بہتر ہو سکیں،مگر انھوں نے اس کے بجائے مخالفین کو دیوار میں چننا شروع کر دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کئی باراس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے تھے کہ عدالت میں پیشی کے موقع پر انھیں کسی وقت بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔اسی بنا پر ان کے کارکنوں میں اشتعال پایا جاتا تھا،عمران خان جب بھی عدالت میں پیشی کے لیے جاتے تھے ان کے کارکن ان کے ساتھ جاتے تھے کیونکہ کارکنوں کو خدشہ تھا کہ ان کے لیڈر کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ عمران خان کو جس مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے،وہ کیس کیا ہے؟2019 میں خان کے دور حکومت میں ملک ریاض کی طرف سے زمین عطیہ کی گئی تھی، صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا، جہاں دنیوی تعلیمات کو صوفی ازم اور سیرت النبیؐ کے ساتھ نہ صرف ملا کر پڑھا جائے گا بلکہ اس پر ریسرچ بھی کی جائے گی۔اس یونیورسٹی میں نہ صرف تعلیم دی جارہی ہے بلکہ آکسفورڈ ریذیڈینشل کالج کی طرز پر طلبہ کو مینٹورز بھی اسائن کیے جانے کا بھی پروگرام ہے،جو نہ صرف کلاس ختم ہونے کے بعد بھی طلبہ کے ساتھ ہوں گے بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی کریں گے۔ اس جامعہ میں ایسا نظامِ تعلیم وضع کرنے کا پروگرام بنایا گیا تھا، جس میں طلبہ و طالبات کو جدید علوم قرآن و سنت کی روشنی میں نہ صرف سکھائے جائیں گے بلکہ اصل روح کے مطابق ان تعلیمات پر عمل کرنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر القادر ٹرسٹ کو ملنے والے عطیات یا یونیورسٹی کو ملنے والی گرانٹ میں کوئی مسئلہ تھا،تواس کاباقاعدہ طور پر آئین اور قانون میں ایک طریقہ موجود ہے،اس حوالے صرف اور صرف قانون اور آئین کے مطابق ہی کارروائی ہونی چاہیے تھی نہ کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈائری برانچ کے شیشے توڑ کر اس انداز سے گرفتار کیا جاتا کہ ان کے کارکنوں میں اشتعال کا باعث بن جائے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی اس موقع پر صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے،قانون ہاتھ میں لینے سے ملکی حالات مزید خراب ہو ں گے،جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کی سیاست ملکی مفاد میں نہیں ہے،لہذا احتجاج کے بجائے قانونی راستہ اختیار کیا جائے،عدالت کو خود اس پر کارروائی کرنی چاہیے کہ رینجرز نے کیسے عدالت میں داخل ہو کر ایک سابق وزیر اعظم کو گرفتار کیا ہے؟ عمران خان سابق وزیر اعظم رہے ہیں،وہ قابل احترام ہیں،لہذا تفتیش کاروں کوآئین و قانون کے مطابق ان سے عزت واحترام کے ساتھ کیس کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی چاہیے،تاکہ سابق وزیر اعظم کااستحقاق مجروح نہ ہو،دوران تفتیش اورجیل میں بھی انھیں وہ تمام سہولتیں فراہم کی جائیں، جو بطورسابق وزیر اعظم ان کا حق ہے۔عمران خان ماضی قریب میں اپنے اوپر ہونے والے حملے میں کئی حاضر سروس آفیسر ز کے نام لے چکے ہیں، لہذا اس وقت ان تمام آفیسرز سے عمران خان کے کسی بھی کیس کی تفتیش نہ کرائی جائے۔ان کی گرفتاری پر ملک گیر کے علاوہ بیرون ملک برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک میں جو رد عمل بھی ہواہے، وہ عمران خان کی مقبولیت کا بین ثبوت ہے،عدالت کے ا حاطے سے گرفتاری پر وکلاء اور سیاسی حلقوں نے اعتراض کیا ہے کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری غلط ہے۔ در اصل یہ ایک چکر ہے جو مسلسل چل رہا ہے۔پی ڈی ایم حکومت نے بھی وہی ہتھکنڈے اختیار کیے جو اس سے قبل پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ الگ الگ اپنے اپنے ادوار میں اختیار کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے لیے بہت سے حیلے کیے گئے پہلے ان کی جان کو خطرات ظاہر کیے گئے پھر یکے بعد دیگرے کئی مقدمات میں ضمانتیں دی گئیں اورجس تیزی سے ضمانتیں دی جا رہی تھیں اسی تیزی سے نئے مقدمات بنائے جاتے رہے، پھر یہ یقینی بنایا گیا کہ پیشی پر کم سے کم لوگ آئیں اور پھر گرفتار کر لیا۔
عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرنے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ غیر قانونی اور توہین عدالت ہے۔ ہو سکتا ہے عمران خان کو بد عنوانی کے الزام میں سیاست میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا جائے۔پاکستانی سیاست سے سیاستدانوں کی بے دخلی یا اسٹیبلشمنٹ کے دخل اندازی کے الزامات تو موجود ہیں ہی اور عمران خان اس حوالے سے سب سے زیادہ سخت الزامات لگا رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں ایک خوف کی فضا بنی ہوئی ہے،لہذا اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان کو عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے۔تاکہ احتجاج میں کسی قسم کے تشدد کا عنصر نہ پایا جائے۔عوام کو بتایا جائے کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جائے گی بلکہ آئین و قانون کے مطابق کیس کی تفتیش کی جائے گی کیونکہ اس وقت ملک کسی قسم کے انتشار اور لڑائی جھگڑے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملک وقوم کی بہتری کا سوچا جائے۔کیونکہ عمران خان کو ایک مقدمے کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جس کا عدالت میں ٹرائل ہونا ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ انھوں واقعی خلافِ قانون کچھ کیا ہے یا نہیں۔ اسی طرح عمران خان کو بھی چاہیے کہ ان کے پاس اگر کسی افسر کے خلاف واقعی کوئی ثبوت ہیں تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں، اور اگر وہ عدالتِ عظمیٰ کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تو پھر محض الزام تراشی کر کے لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالیں۔ الزام تراشی کا یہ سلسلہ جتنی جلد بند ہو اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ اس سے ایک طرف اداروں کو نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم کے لیے راہ ہموار ہورہی ہے۔