میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ارکین کی خریدوفروخت کے ذریعے حکومت گرانے کاسلسلہ بندہوجاچاہیے، سپریم کورٹ

ارکین کی خریدوفروخت کے ذریعے حکومت گرانے کاسلسلہ بندہوجاچاہیے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۱ مئی ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن نے ارٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک ارکان اسمبلی کی نااہلی کا حکم عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عمران خان کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا، مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی امیدوار آئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نااہل ہوگا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہو جائے گی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے، جب تک نااہلی کا حکم عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی، یوٹیلیٹی بلز کی عدم ادائیگی پر نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کوئی ڈی سیٹ ہو اور 15 دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ آجائے، ہوسکتا ہے دوبارہ منتخب ہو کر کوئی وزیر بھی بن جائے، ایسا ہو جانا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ مذاق ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ قانونی اصلاحات کریں، توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) جی پڑھ لیں، آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں۔بابر اعوان نے کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے، اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے جواب دیا کہ میری نظر میں آرٹیکل 63 (1) جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے، آرٹیکل 63 (1) جی عدلیہ و فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان سے متعلق ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں نااہلی کی میعاد نہ ہونے پر تاحیات نااہلی ہوگی۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کا آرٹیکل 62 ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے؟۔بابر اعوان نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63 اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات ناہل کرتا ہے، کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26 ارکان پارٹی چھوڑ جائیں، اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آجائے گی۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کر سکے؟بابر اعوان نے جواب دیا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے علاوہ بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں، اٹھارویں ترمیم میں کینسر کا علاج کرنے کے لیے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے بنائی گئی، اٹھارویں ترمیم دراصل متفقہ ترمیم تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں، کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کر سکتی ہے؟بابر اعوان نے مشرف مارشل لا توثیق کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو آئینی ترمیم کا اختیار دیا تھا، عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مجھ سمیت سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے اب بہت ہو چکا، جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ اتنا حوصلہ بھی ہونا چاہیے کہ ان فیصلوں کا حوالہ سن سکیں، سپریم کورٹ آخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اور جلسے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں