لینڈ مافیا و گھوسٹ ملازمین کے سامنے میئر کراچی بے بس
شیئر کریں
(رپورٹ جوہر مجید شاہ) بلدیہ عظمی کراچی کے مختلف محکموں پر مئیر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب کی گرفت وقت کیساتھ کمزور پڑتی جارہی ہے ‘ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی قبضہ شدہ اراضی کی واپسی سمیت ‘ سیاسی گھوسٹ ملازمین ‘ اور ادارے میں لینڈ کرنے والے دیگر محکموں کے ‘ ہیلی کاپٹرز کے خلاف کاروائی میں مئیر مکمل طور پر ناکام ادھر محکمہ چارجڈ پارکنگ میں ‘ ہیلی کاپٹر’ ملازمین کے باعث محکمہ کے’ اصل بھرتی شدہ ‘ پیرنٹس ‘ ملازمین متنفر اور شدید ازیت میں مبتلا ہونے لگے کیونکہ ‘ مختص آسامیوں’ سے زائد غیر ضروری ملازمین کی وجہ سے تنخواہوں میں تاخیر معمول بنتی جارہی ہے ‘ کے ایم سی’ کے قریبی ذرائع کے مطابق محکمہ چارجڈ پارکنگ میں’ بجٹ بک’ ‘ ریکارڈ ‘ کے مطابق 46 انسپکٹرز کی ‘ آسامیایوں ‘ کی تنخواہیں مختص ہیں لیکن ہر ماہ خلاف قانون 56 انسپکٹرز کی تنخواہیں بنائی جاتی ہے جس کے سبب ہر ماہ تنخواہوں کے بل پاس کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں عدالتی احکامات کو جواز بنا کر کے ایم سی’ محکمہ ایچ آر ایم’ اور’ پیرول’ کے افسران کی ملی بھگت سے سینکڑوں بھرتیاں کی گئی ہیں جنہیں کنٹریکٹ ملازم ظاہر کیا گیا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل عدالت نے ‘ کے ایم سی’ کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر سابق میئر وسیم اختر نے اس وقت کے وزیر اعلی سے ملازمین کو مستقل کرنے کی ‘ سمری منظور کرواکر ملازمین کو مستقل کرنے کی ہدایات جاری کی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق میئر اور وزیر اعلی کے ایک احسن اقدام کو بلدیہ عظمی کراچی کے ‘ کرپٹ و راشی افسران نے کمائی کا زریعہ بنا لیا اور مبینہ طور پر بھاری نزرانے کے عوض سینکڑوں افراد کو مستقل ملازمت کے لیٹر جاری کردیے ان میں اکثریت ‘ کے ایم سی ‘ کے طاقتور افسران کے قریبی عزیز و اقارب بھی شامل ہیں جبکہ اس گورکھ دھندے میں ‘ کروڑوں روپے بطور رشوت ‘ کا گیم بھی خوب چلایا گیا دلچسپ امر یہ ہے کہ جن افراد کو مستقل کیا گیا ان میں سے اکثریت کبھی بھی کے ایم سی میں کنٹریکٹ ملازم نہیں تھے میڈیا پر خبروں کی اشاعت کے بعد سابق میئر نے خود کو بچانے کیلے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تمام بھرتیاں کینسل کرتے ہوئے اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دے دی جس کی ابتدائی چھان پھٹک کے دوران انکشاف ہوا کہ جن
افراد کو کنٹریکٹ ملازم ظاہر کرکے مستقل کیا گیا ان میں سے اکثریت نہ تو عارضی ملازم تھے اور نہ ہی ان کے بنک اکاونٹس تھے تاہم بعد ازاں سیاسی دباو کے سبب انہیں دوبارہ مستقل کرنے کے آرڈر جاری کردیے گئے جس کے سبب ‘ کے ایم سی ‘ کے بجٹ پر ناقابل تلافی بوجھ پڑا اور اصل ملازمین شدید ازیت میں مبتلا ہیں مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر بلدیات سندھ مئیر کراچی سمیت تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔