قومی اسمبلی ، تر میم شدہ زینب الرٹ بل2020کثرت رائے سے منظور
شیئر کریں
قومی اسمبلی میں بدھ کو سینیٹ سے ترمیم شدہ زینب الرٹ بل 2020ء کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ پھانسی کی شق نکالنے پر جماعت اسلامی نے مخالفت کی۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا ہے کہ بل میں ردوبدل سے بچوں سے زیادتی کرنے والے مجرمان کو سبق آموز سزا ملنے کی بجائے تحفظ ملے گا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اسلام آباد سمیت ملک بھر میں بچوں اور بچیوں سے بھیک منگوانے کے ٹھیکیداری نظام کا قلع قمع کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے گمشدہ اور اغواء شدہ بچوں کے لئے الرٹ کو بڑھانے جوابی ردعمل اور بازیابی کیلئے احکامات کرنے کا سینیٹ سے ترمیم شدہ بل پیش کیا۔ سپیکر نے کہا کہ قانون اسلام آباد میں لاگو ہو گا۔ مولانا عبدالاکبر کو بل میں متذکرہ جرم کے سفاک مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کی ترمیم پیش کرنے کی سپیکر اسد قیصر نے اجازت نہیں دی۔ جماعت اسلامی کے رکن نے کہا کہ ارکان کو تاخیر سے ایجنڈا موصول ہوا ہے ۔ ہمارے پاس کیا غیب کا علم ہے کہ ہمیں پتہ چلتا آج زینب الرٹ بل آئے گا میں نے ترمیم کا نوٹس دیا۔ سپیکر نے کہا کہ ضابطے کے مطابق بروقت نوٹس نہیں آیا انہوں نے مولانا عبدالاکبر چترالی کو ترمیم پیش کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا کہ ہمیں بل پر اعتراض نہیں ہے ۔ تاہم بچوں کے تحفظ کے قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے ۔ اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ہر سگنل پر زینب بھیک مانگنے اور وائپر اٹھائے گاڑیاں صاف کرنے والی 6 ، 7 سال عمر کی بچیوں کے بارے میں سوچیں بھیک منگوانے کے لئے ٹھیکیداری نظام بنا ہوا ہے یہاں این جی اوز کو خوش کرنے کے لئے بلز منظور کروائے جا رہے ہیں۔ مگر بچوں کا تحفظ نہیں ہو رہا ہے کیونکہ قوانین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے ۔ بھیک کے لئے بچے بچیاں ہائر کی جاتی ہیں۔ زیادہ رقم ٹھیکیدار لے جاتا ہے یہ مافیا بن گیا ہے ۔ بچوں کو معمولی رقم دیتے ہیں۔ بھیک کے ٹھیکیداری نظام کو ختم کیا جائے ۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ زینب الرٹ بل سے بچوں بچیوں سے زنا باجلبر کے مجرم کو پھانسی دینے کو نکالا جا رہا ہے ۔ یہ بچوں کے انسانی حقوق کی حفاظت نہیں بلکہ مجرمان کے تحفظ کا بل ہے ۔ انہوں نے بل کی شدید مخالفت کی اور ردوبدل کرنے پر احتجاج بھی کیا ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بل کی منظوری دیں۔ ایک سال کا وقت لگا ہے ۔ 8 ماہ قومی اسمبلی ڈھائی ماہ سینیٹ میں لگ گئے اب سینیٹ نے ترمیم کی ہے ۔ بل ملک بھر میں لاگو ہو گا۔ سپیکر اسد قیصر نے درستگی کی کہ فی الحال زینب الرٹ بل اسلام آباد میں لاگو ہو گا۔ دستاویزات میں تکنیکی خامی رہ گئی ہے ، بعد میں درست کر لیا جائے گا۔ وزیر انسانی حقوق نے زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی بل 2020ء منظوری کے لئے پیش کیا۔ کثرت رائے سے بل کو منظور کر لیا گیا۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے بلند آواز میں نو، نو کہا۔