کیا بھارت ٹوٹنے کو ہے؟
شیئر کریں
شہزاد احمد
انتہا پسند ہندو تنظیموں اور’ ہندو تا‘ جیسے فلسفے کی موجودگی میں بھارت کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہندواتا کے نظریے کے نفاذ کے لیے سب سے پہلے یہ حکمت عملی اختیار کی جائے کہ تمام غیر ہندو اقوام کو اٹھا کر بھارت سے باہر پھینک دیا جائے یا ان کو زبردستی ہندو دھرم میں شامل کرلیا جائے۔ اگر یہ دونوں طریقے لاگو نہ ہوتے ہوں تو پھر ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا جائے۔
بھارت میں تمام آباد غیر ہندواقوام پر غلبہ پانے کے لیے ہندو انتہا پسند تنظیموں کا وجود عمل میں آیا۔ ان میں بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل بڑی انتہا پسند تنظیمیں ہیں جو غیر ہندو اقوام کو جان سے مارنے کے درپے ہیں۔ گجرات، اڑیسہ اور کرناٹک میں غیر ہندووں کو زبردستی ہندو بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اڑیسہ اور کرناٹک میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں غیر ہندو اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنانے میںناکامی پر انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
یوں تو ہر انتہا پسند ہندو جماعت تمام غیر ہندووں کی دشمن ہے مگر مسلمانوں پر ان کی عنایات کچھ زیادہ ہی ہیں۔ بال ٹھاکرے کی مسلم دشمنی تو سب کے سامنے ہی ہے ۔ ان کی پارٹی کے لوگ ممبئی ، ناسک اور پونا جیسے شہروں میں سڑک چلتے لوگوں کو پکڑکربری طرح پٹائی کرتے ہیں اور ان کو مہاراشٹر چھوڑ کر جانے کو کہتے ہیں۔ راج ٹھاکرے کا نعرہ ہے مہاراشٹر میراٹھیوں کے لیے اور شمالی بھارتیوں! مہاراشٹر خالی کر دو۔پاکستان‘ انڈیا کے میچوں سے قبل پچ اکھاڑنا اور Valentineدن کے موقع پر جوڑوں کو تشدد کا نشانہ بنانا ان کا خاصا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ سب ان کے کلچر پر ضرب کاری ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی اس بھارتی طرز عمل پر انکھیں بند کر رکھی ہیں اور بھارتی سرکار کو سیکولر ازم کی دھجیاں بکھیرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
بھارتی صوبہ گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے بھارتی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ان فسادات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی براہ راست ملوث تھے جنہوں نے ہندوؤں کو تین دن کی کھلی چھٹی دی اور زیادہ مسلمانوں کو شہید کرنے والے ہندوؤں کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گودھرا میں ٹرین پر حملہ پہلے سے تیار شدہ منصوبہ تھا۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ٹرین پر حملہ ہونے کے محض چند گھنٹوں کے اندر گجرات بھر سے مسلح انتہا پسند ہندو وہاںپہنچنا شروع ہو گئے۔ ان کے ہاتھوں میں مسلمانوں کے گھروں اور املاک کے بارے میں تفصیلی فہرستیں تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی سو مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا انہیں زندہ جلادیا گیا۔ خواتین کی عصمت دری کی گئی ان کے گھروں اور ان کی دکانوں کو لوٹ کر نذر آتش کر دیا گیا۔
بھارت کا یہ بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہے کہ نئے اور الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آسام کا بوڈو انتہاپسند قبیلہ اپنے لیے علیحدہ صوبہ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس قبیلے کے بعض عناصر انتہا پسند سمجھے جاتے ہیں جو مرکز سے علیحدگی اختیار کر کے ایک بوڈو مملکت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آسام کے بوڈو علاقوں پر مشتمل ایک نئی ریاست بھی بنا دی جائے تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور اس قبیلے کے تمام انتہا پسند مطمئن ہو جائیں گے۔ ناگالینڈ فیزو اور میزو، نیشنل فرنٹ کے نام اس بغاوت کے اصل کردار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی علیحدگی کے لیے کئی نئی تنظیمیں بن گئیں ہیں۔ بوڈو پیپلز ایکشن کونسل، بوڈو سکیورٹی فورس، گورکھا نیشنل لبریشن فرنٹ، نیشنل سول کونسل آف ناگالینڈ وغیرہ۔ ان تنظیموں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
بھارت کی آٹھ بڑی ریاستوں میں نکسل باڑیوں کی حکومت ہے۔ ان میں گارڈچپرولی سے مہاراشٹر، ابوج مرہ سے چھتیس گڑھ کے 92 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ شامل ہے۔ ماؤ باغی اور نکسل باڑی خود ہی اپنے قوانین بناتے ہیں اور خود ہی ان کا نفاذ عمل میں لاتے ہیں۔ انہوں نے ریاست کے اندر ریاستیں بنا رکھی ہیں۔یوں کہہ لیجئے کہ وسطیٰ بھارت کا ایک بڑا حصہ باغیوں کے قبضے میں ہے۔
بھارت سے آزادی کی سکھوں کی تحریک خالصتان موومنٹ زور پکڑگئی ہے۔ سکھوں نے خالصتان کے ساتھ فری مقبوضہ کشمیر اور فری ناگا لینڈ کا بھی نعرہ لگا دیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق سکھوں کی خالصتان تحریک ایک مرتبہ پھر زور پکڑ رہی ہے۔ہزاروں سکھوں نے بھارت، لندن اور دیگر یورپی شہروں میں مظاہرے کیے اور بھارت میں خالصتان کے قیام کا مطالبہ کیا۔ مظاہروں کے دوران سکھ رہنماؤں نے کہاکہ بھارت سکھوں کے حقوق غضب کررہاہے اور گرد واروں اور دیگر مذہبی مقامات پر حملے کرکے سکھ خواتین، بچوں، بڑوں اور بزرگوں کو قتل کر رہا ہے۔رہنماؤں نے کہاکہ بھارت کو نہ صرف خالستان دینا ہوگا بلکہ مقبوضہ کشمیر، ناگا لینڈ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کوبھی آزادی دینا ہوگی۔ خالصتان موومنٹ تمام محکوموں کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی۔
مدھیہ پردیش میں عیسائیوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد حملوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ مسیحی برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ وقت سے وہاں ان کی کمیونٹی پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ برس کرسمس کے دوران بھی عیسائی ہندو تنظیموں کے حملوں کے شکار ہوئے ہیں۔
بھارت کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بھی تبدیلیِ مذہب کے نام پر سوال سر اٹھا رہے ہیں لیکن مدھیہ پردیش کے ڈائریکٹر جنرل پولیس اس کے برعکس کہتے ہیں: ’اگر میرے پاس کوئی شکایت آئے گی تو میں اس کی جانچ ضرور کرواؤں گا۔ پولیس آخر کسی ایک کے حق میں کیوں کھڑی ہو گی؟‘منسٹر آف جسٹس کرائسٹ تنظیم کے شیبو تھامس الزام لگاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں عیسائی کمیونٹی پر حملے ریاست میں بی جے پی حکومت کے بننے کے ساتھ ہی تیز ہو گئے تھے لیکن مرکز میں مودی حکومت کے آنے کے بعد یہ بڑھ گئے ہیں۔مدھیہ پردیش عیسائی ایسوسی ایشن کی صدر اندرا آگر کہتی ہیں کہ یہ وقت عیسائیوں کے لیے بہت خراب ہے۔
حالات و واقعات نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بھارت کا معاشرہ اب بھی انتہاپسندی، ذات پات، تعصب اور درجہ بندی کے ہزاروں سال پرانے نظریات پر قائم ہے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کی وجہ سے بھارت تقسیم ہو سکتا ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے ملکی سلامتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے پانچ سو پینتیس میں سے دو سو اضلاح میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ صرف علیحدگی کی تحریکیں ہی نہیں نسلی تنازعات اورذات پات کے جھگڑے بڑھ چکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ بھارت کا وفاق جبر کے نظام کے ذریعے قائم کیا گیا ہے اور خود بھارتی حلقے ماضی میں خبردار کرتے رہے ہیں کہ بھارت ٹوٹ جائے گا۔