میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ

خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ

منتظم
اتوار, ۱۱ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

مولانا محمد جہان یعقوب
حضرت سیدناصدیق اکبرؓ وہ پہلے انسان ہیں،جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا،اور آپ کے ایسے ساتھی بنے کہ نبی کے بعد جس ہستی کا تصور ذہنوں میں آتا ہے ،وہ آپ ہی کی ہستی ہے۔آپ کاقبول ِ اسلام بھی غیبی اشارہ تھا،اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ :ربیعہ بن کعبؓ فرماتے ہیں: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ:اسلام سے قبل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار علاقہ کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ تجارت کے سلسلے میں آپؓ ملک شام تشریف لے گئے۔ یہاں قیام کے دوران ایک رات آپ ؓ نے خواب دیکھا کہ چاند اور سورج آسمان سے نیچے اتر آئے ہیں اور آپ کی گود میں داخل ہوگئے ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک ہاتھ سے چاند اور ایک ہاتھ سے سورج کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور انھیں اپنی چادر میں چھپا لیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بیدار ہوئے تو اس عجیب و غریب خواب کی تعبیر پوچھنے کے لیے قریب ہی ایک راہب کے پاس تشریف لے گئے۔ اس راہب نے سارا خواب سن کر آپ سے پوچھا:تم کہاں سے آئے ہو؟ آپ ؓ نے فرمایا: مکہ سے۔ اس نے پھر پوچھا: کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ فرمایا: قریش سے۔ اس نے پوچھا: کیا کرتے ہو؟ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا، تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی زندگی میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓنے اس واقعے کو پوشیدہ رکھااور کسی کو نہ بتایا اور جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ نے یہی واقعہ بطورِ دلیل ان کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپؓنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔(ریاض النضرۃ:جلداول،صفحہ:183)

آپ اپنے نام عبداللہ سے زیادہ’’ صدیق‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے،اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی کی سیر کرائی گئی ،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟آپؓنے فرمایا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپؓنے فرمایا:اگرحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے، تو یقینا سچ فرمایا ہے اور میں ان کی اس بات کی بلا جھجک تصدیق کرتا ہوں۔انھوں نے کہا: کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟آپ ؓنے فرمایا:جی ہاں! میں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے۔(مستدرک حاکم ،حدیث نمبر:4515) اس واقعے کے بعد آپؓ صدیق کے لقب سے مشہور ہوگئے۔(مستدرک حاکم)

آپ کاایک لقب عتیق بھی ہے،بمعنی جہنم کی آگ سے آزاد۔حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم اللہ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔ اس دن سے آپؓ کالقب ’’عتیق ‘‘پڑ گیا۔(ابن حبان)

حضرت صدیق اکبرؓ اپنی نرم دلی،رقت قلبی اور تحمل مزاجی کے حوالے سے عالم گیر شہرت رکھتے ہیں،لیکن یہ نرم دلی،رقت قلبی اور تحمل بھی شریعت کے تابع تھا،کوئی خلاف شریعت کام دیکھتے ،توان سے زیادہ جلال وغیرت والا بھی کوئی نظر نہ آتا تھا۔اقبالؒ کے لفظوں میں

ہوحلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم ِ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مؤمن

چناں چہ کفار کے ایک مذہبی پیشوا فنحاص بن عازوراء نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی ،تو صدیقؓ نے اس زور سے تھپڑ رسید کیا،کہ وہ گرگیا،حالاں کہ اس وقت آپ ؓاس کے ادارے بیت المدارس میں تشریف فرما تھے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے والد ابوقحافہ نے (قبول اسلام سے پہلے)ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ دیے، تو حضرت سیدنا ابوبکرؓ نے انہیں اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جاگرے۔ بعد میں آپؓ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اے ابوبکرؓ! کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: آیندہ ایسا نہ کرنا۔ عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر اس وقت میرے پاس تلوار ہوتی تو میں ان کا سرقلم کردیتا۔ اسی وقت آپ کے حق میں سور ۃالمجادلہ کی آیت نمبر22 نازل ہوئی۔(تفسیر روح المعانی)
اسی طرح آپؓکے بیٹے عبدالرحمن بن ابوبکرؓ،جب وہ اسلام لے آئے تو ایک روز حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ سے کہنے لگے: ابا جان! میدانِ بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یہ سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے غیرت ایمانی سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:لیکن اگر تو میرا ہدف بنتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا۔یعنی میں کبھی یہ نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو، بلکہ اس وقت تمھیں دشمن ِرسول سمجھ کر تمھاری گردن اڑادیتا۔(نوادرالاصول، امام ترمذی، الرقم:710، 1:496)آپ ؓ جب اسلام میں داخل ہوئے تو ان کے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے، لیکن جب آپؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپؓ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ ؓنے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔(ابن عساکر)

عبد اللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق ؓ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عبا پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے،سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر ؓنے عبا پہن کر اسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جبرئیل ؑ! انھوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : اللہ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر ؓ سے کہیں، کیا تو اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہے؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکرؓ!اللہ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں، کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے ؟ ابوبکرؓنے عرض کی۔ میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے(ہر حال میں)راضی ہوں ،یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا۔(تفسیرابن کثیر)

حضرت زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب ؓکو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لیے میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا، اگر میں ابوبکر صدیقؓ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں ،تو آج سبقت لے جاؤں گا۔فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کی : اتنا ہی مال ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میںحضرت ابوبکرؓ، جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے ابوبکرؓ ! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی : میں ان کے لیے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔ (ترمذی۔مسندبزار)شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے اس بات کوبڑے خوب صورت انداز میں شعر کا روپ دیا ہے،کہتے ہیں

پروانے کو چراغ توبلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس

یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ۔(ترمذی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ابوبکرؓ ابن ابی قحافہؓ سے بڑھ کر اپنی جان و مال قربان کرنے کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں۔(صحیح بخاری)حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت اور ان کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔

صحابہ کرام ؓبیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔(فیض القدیر)

صدیق اکبرؓ کو اپنی حیات طیبہ میں سترہ نمازوں کا امام بنا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی خلافت کا عملی اعلان فرمادیا تھا،سو وصال نبوی کے بعد صحابہ ؓ نے آپ کے دست حق پرست پربیعت خلافت فرمائی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے نشریف لے جانا تھا کہ پورے عرب میں یکایک بغاوت کا طوفان اس زور سے اٹھا کہ اسلام کی عمارت کے درو دیوار ہل کررہ گئے۔ (جاری ہے )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں