میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سرخ گلاب کی دبیزچادر

سرخ گلاب کی دبیزچادر

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۱ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک
انسان کی تخلیق بے شک خداوند قدوس کاایک بہت عظیم کارنامہ ہے پھراس تخلیق کوخالق نے اشرف المخلوقات کہہ کر اس کی عظمت کا معیار بھی مقررکردیا،ساتھ ہی زمین آسمان، سورج،پانی ہوابلکہ ساری کائنات کی تخلیق کرکے انسانی زندگی کے تسلسل کاسامان بھی پیدافرماتے ہوئے یہ حکم بھی صادرفرمادیاکہ کسی ایک انسان کاقتل ساری انسانیت کاقتل ہے۔ ان واضح احکامات کے باوجودبہت سے فراعین،ظالم بادشاہوں،جمہوریت کانعرہ لگانے والی حکومتوں،فوجی اورسیاسی آمروں نے انسانیت کابے دریغ قتل کرکے اپنے ہاتھ انسانی خون سے رنگے۔پہلی جنگ عظیم میں انسانوں کاقتل،دوسری جنگ عظیم میں ہٹلرکے ہاتھوں انسانی جانوں کاضیاع،جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پرامریکاکاایٹمی حملہ جس میں نہتے لوگوں کی ہڈیاں بھی راکھ بن گئیں، ویت نام،کوریا،بوسنیا،ایران عراق، فلسطین، عرب اسرائیل اورگلف کی لڑائیوں میں بے پناہ لوگ لقمہ اجل بن گئے اوراب یہی سلسلہ غزہ میں جاری ہے۔
ابھی کل کی بات ہے،عراق اورافغانستان میں جوہوا،وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن کشمیر کی صورتحال سب سے زیادہ ابتر اور ناروا ہے اوردن بدن ساری دنیاکے امن کیلئے ایک خطرناک دہماکہ خیزہوتی جارہی ہے کہ اس مسئلے کے تین فریقوں میں سے دوایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ میڈیاکی آزادی اب زندگی کے ہرپہلوپراثر اندازہوناشروع ہوگئی ہے۔چندسال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ اس قدرسرعت کے ساتھ کسی ملک میں ہونے والے کسی ظلم وجبریاہونیوالی برائی یاکوئی ایساخفیہ گوشہ آن کی آن میں ساری دنیاکے سامنے آجائے گااورمہذب معاشروں میں اس کاخاطرخواہ ردعمل بھی ہوگالیکن حیرت ہے ان افراد کی سوچ پرجو آج بھی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کوئی پرواہ کئے بغیراپنی اسی پرانی روش کوقائم رکھے ہوئے ہیں اورکشمیرکواپنااٹوٹ انگ کہتے ہوئے اپنے ظلم وستم میں اضافہ کرتے جارہے ہیں۔
سرینگراوردہلی کے درمیان صرف پچھلے25برسوں میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہداکی قبروں کے سات سوقبرستانوں کا سمندرحائل ہو چکاہے اوربالخصوص گزرے ہوئے چند برس میں ایساکون سازخم اوردکھ ہے جومجبورومظلوم کشمیری عوام نے دہلی میں براجمان حکومتی جنتاکے ہاتھوں نہیں سہاہے۔ کشمیریوں اوربھارتی حکومت کے درمیان بے یقینی اور نفرتوں کاسمندر اس قدروسیع ہوچکاہے کہ اس کوپاٹنے کی ہر کوشش کاالٹانتیجہ نکل رہاہے۔صرف سرینگرکے شہرخموشاں کی آبادی میں حالیہ برسوں میں اس قدرتیزی کے ساتھ اضافہ ہواہے کہ اب بھارتی استبدادکا شکارہونے والے نوجوانوں کی تدفین کا مسئلہ پیداہوگیا ہے۔یہ وہ شہداکے قبرستان ہیں جن کے دروازے پرلگے ہوئے بینرکے الفاظ پرشہرخموشاں کی طرف سے وہ پہلی سلامی موصول ہوتی ہے کہ ہمیں فراموش نہ کرنا،ہم نے آپ کیکلپراپناآج قربان کر دیا ہے ہرگزرنے والی کی آنکھوں کواشکبارکردیتے ہیں اورتیزچلے والے قدم کچھ دیر کیلئے اپنی تمام مصروفیات کوبھول کراپنے آنسوں کی سلامی کے ساتھ تجدیدعہدکے ساتھ حاضر ہوجاتے ہیں۔
یہ ہے سینکڑوں قبرستانوں میں سے ایک قبرستان کانحیف ونزار،ادھیڑعمرعبدالحمیدگورکن جوبرسوں سے اپنے دل میں ڈھیروں داستانیں چھپائے اس شہرِخموشاں کی دیکھ بھال کواپنے لئے ایک اعزازاوربخشش ونجات کاوسیلہ سمجھ کردن رات خدمت میں مصروف ہے۔ عبدالحمید کبھی کبھی اپنی نمناک آنکھوں کوبند کرکے1990سے لیکرآج تک ہونے والے بھارتی مظالم کویادکرتا ہے توبے اختیاراس کے منہ سے ایک ہوک سی نکل جاتی ہے کہ مسلسل کئی دن تک پندرہ سے زیادہ شہیدوں کوہرروزلحدمیں اتارنے کافریضہ سر انجام دیتارہاہے اور بالخصوص معصوم بچوں کی تدفین کاسلسلے کوبتاتے ہوئے اس کی زبان سے کہیں زیادہ اس کے نہ رکنے والے اشک ساری کہانی بتادیتے ہیں اوردیکھنے والے کے اوسان خطاہوجاتے ہیں۔عبدالحمیدکاکہناہے شہرخموشاں کے نگراں جلسے جلوسوں اورمظاہروں کودیکھ کراندازہ لگالیتے تھے کہ شہدا کی کتنی تعداد گھرواپس جانے کی بجائے اس شہرخموشاں کارخ کریں گے اوراسی حساب سے ہم نوجوان شہدا کے استقبال کی تیاریاں شروع کر دیتے تھے۔بیتے دنوں کے واقعات کریدتے ہوئے اس کی سانس پھول رہی تھی اورصاف محسوس ہورہاتھاکہ وہ کس قدردباؤمیں ہے۔ سامنے معصوم شہدابچوں کی قبروں کی طرف اشارہ کرکے اپنی یادیں سنارہاتھاکہ جب فوج اورپولیس کیخلاف پتھرپھینکنے والے کم عمرلڑکے یا معصوم طلبہ میدان میں اترے تودوسری طرف سے بھارتی فوجیوں نے اندھادھندپیلٹ گن سے بھون دینے کا انسانیت سوز سلسلہ شروع کردیاتوگورکنوں نے شہداکی لاشیں آنے سے پہلے ہی پچاس نئی قبریں تیارکرلیں جوکہ بعدمیں کم پڑ گئیں۔بقول عبدالحمیدپہاڑوں سے اترتی موت کااندازہ ہوجاتاتھا۔مسلح درندوں کے مقابلے میں سنگبازنوجوان اپنی جانیں بے دریغ اندازمیں قربان کرنے کیلئے واضح طور پر نظر آتے تھے جبکہ گولیاں چلانے والوں کے ناپاک عزائم بھی کبھی ڈھکے چھپے نہیں تھے ۔ہمیں یقین تھاکہ موت تھوک کے حساب سے آئے گی، اسی لئے ہم نے پیش بندی کے طورپراپناکام جلدی جلدی مکمل کرنا شروع کردیاتھا۔تھوڑی دیرکیلئے عبدالحمیدخاموشی سے آسمان تکتارہا،وہ کچھ کہناچاہتاتھالیکن شائد اس کی زبان اس کاساتھ نہیں دے رہی تھی۔ یکدم اس کی آنکھوں سے گرم گرم آنسوؤں کے چشمے ابلنے لگے۔اس نے ایک قبرکی طرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ قبرایک بارہ سالہ بچے کی ہے جواپنی شہادت سے ایک ہفتہ قبل ہرروزبلاناغہ ان شہدا کی قبروں پراپنی بہت ہی خوبصورت مترنم آوازمیں قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتاتھا۔اپنی شہادت سے چاردن پہلے اس نے مجھ سے سوال کیا چچا!تم توبرسوں سے اس قبرستان میں موجودہواورہزاروں شہداکی قبروں کوکھودنے کی سعادت بھی تم کوحاصل ہے۔ کوئی ایک مثال ایسی توبتاؤجب تمہیں کسی کودفناتے ہوئے ہوئے سب سے زیادہ دکھ ہوا ہو؟
میں اس بچے کے سوال پرچونک گیااوراس کویہاں سب سے کم عمرشہیددوسالہ بچے ثاقب بشیرکی قبرپرلے گیاجسے اس کی ماں کے ساتھ بھارتی ظالم فوج نے فائرنگ کرکے تقریباً8 سال پہلے شہیدکردیاتھا۔اس بارہ سالہ بچے نے پہلے ان دونوں قبروں پرپڑے ہوئے پتوں کو ایک طرف کیااوراس کے بعدبہت ہی دردناک آوازمیں اس قبرپرقرآن کی تلاوت کی اورسلام کرکے رخصت ہونے لگاتواونچی آوازمیں بولا: بابا اگرمیں شہید ہوجاؤں تومجھے بھی اس بچے کی بغل میں دفن کرناکیونکہ میرے گھرمیں اب کوئی بالغ مردوعورت نہیں بچا جو میری میت کے ساتھ آسکیں۔میں نے یہ سن کرفوری طورپرگلے سے لگایاکہ یہ سب نوجوان میرے ہی بیٹے ہیں جن سے شب وروزمیری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔میں نے اس کو کرفیوکی پاسداری کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے گھرلوٹ جانے کوکہا۔
عبدالحمید کچھ دیرکیلئے پھرخاموش ہوگیا جیسے وہ اپنی قوتِ گویائی کواکٹھا کررہاہواوراچانک اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک اور ہونٹوں پرایک تفاخرانہ مسکراہٹ نمودارہوئی اور اس نے بڑے یقین کے ساتھ بتایاکہ ان شہداکے چہروں پرمیں نے جواطمینان اور مسکراہٹ دیکھی ہے،میں ان کوالفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔اس کاثبوت یہ ان دیکھی خوشبوہے جوہرآنے والے کااستقبال کرتی ہے۔
اپنی یادداشتوں کودہراتے ہوئے گویاہوا:ہرشہیدکی میت دیکھ کرقدرتی طورپرصدمہ ہوتاہے لیکن یہ تومیرے گمان میں بھی نہ تھاکہ شہداکی قبروں پرجس بچے نے چنددن پہلے جس سوزو گداز سے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی،تین دن کے بعدمجھے اسی بچے کودوسرے چھ بچوں سمیت اپنے ہاتھوں سے لحدمیں اتارناپڑے گا۔اس معصوم شہید کی میت دیکھ کر میرے دوسرے ساتھیوں کی آنکھوں سے بھی آنسوؤں کا سیلاب امڈ پڑا۔ہم نے اس شہید کوبھی اسی دوسالہ ثاقب بشیرکے ساتھ ہی دفن کردیاجس کاجسدِخاکی پاکستانی پرچم میں لپیٹاہواتھا۔مجھے بعد میں پتہ چلاکہ اس بچے نے دوماہ پہلے اپنی والدہ کو یہ وصیت کی تھی کہ میں جب شہید ہوجاؤں تومجھے پاکستانی پرچم میں دفن کرنااورمیراجنازہ سیدعلی گیلانی پڑھائیں ۔سید علی گیلانی کوتوبھارتی درندوں نے پچھلے کئی برس سے نظربندکررکھاتھااورباوجودکوشش کے ان کوبچے کاجنازہ پڑھانے کی اجازت نہ مل سکی لیکن میں نے تہیہ کرلیاتھاکہ میں جب تک زندہ رہوں گا،ہمیشہ اس بچے کی قبرکوسرخ گلاب کے پھولوں کی دبیز چادرمیں اپنے آنسو ملاکرسجائے رکھوں گا۔کیاایسی قوم کومزید غلام بناکررکھاجاسکتاہے جوموت کو اپنی زندگی قراردے چکی ہو، یقینا ہرگز نہیں۔
ہرپھول کی قسمت میں کہاں نازِعروساں
کچھ پھول توکھلتے ہیں مزاروں کیلئے بھی


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں