میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایران پر عرب بہار کا اثر تو نہیں ؟

ایران پر عرب بہار کا اثر تو نہیں ؟

منتظم
جمعرات, ۱۱ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی
پاسدارانِ انقلاب نے حکومت مخالف گیارہ روز سے جاری مظاہروں پر قابو پا لینے کا اعلان کر دیا ہے جس پر فوری یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ بیان جاری کرنے کے لیے اپنی ہی ویب سائٹ کا سہارہ لیا گیا ہے آزاد زرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی اگلے چند ہفتوں تک صورتحال واضح ہو جائے گی پاسدارانِ انقلاب ایران کی جدید تربیت یافتہ عسکری سپاہ ہے یہی سپاہ شام اور یمن میں بھی موجود اور لڑائی میں عملی طور پر شریک ہے مظاہروں کی وجوہات جاننے کے لیے ایرانی پارلیمان کے بندکمرہ اجلاس میں وجوہات جاننے کے لیے اراکین کی تجاویز لی گئی ہیں لیکن جلد لائحہ عمل بنا کر ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو عوامی اضطراب کی لہر شدید ہو سکتی ہے جو ظاہر ہے علاقے کو بدامنی کا مرکز بنانے کی امریکی پالیسی کے عین مطابق ہوگی اگر ایران چاہتا ہے کہ ملک میں انتشار نہ ہو تو اُسے مہنگائی وبے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہوگا سود میں کمی کے ساتھ کچھ سیاسی آزادی بھی دینا ہوگی اب امام خمینی کی طرح مہنگائی کے جواب میں کوئی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ہم تربوزکی قیمت میں کمی لانے کے لیے انقلاب نہیں لائے 2009 میں پیدا ہونے والی احتجاجی تحریک انتخابی دھاندلی کے خلاف تھی لیکن حالیہ احتجاجی لہر عوام کو درپیش مسائل کی بنا پر اُٹھی اور پھر انقلاب اور علی خامنہ ای کے خلاف بھی نعرے لگے یہ سوچ کیوں پیدا ہوئی کیا اسباب ہیں اور تدارک کس طرح ممکن ہے ایرانی قیادت کی حکمت و تدبر کا امتحان ہے اگر محمود احمدی نژاد کی گرفتاری اور مریم رجاوی پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے تک محدود رہا گیا اور اسباب کی بیخ کنی نہ کی گئی تو پھرایران مخالف حلقوں کی امیدیں پوری ہوں گی انجام کارشام و یمن کی طرح ایک اور اسلامی ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔

پاسدارانِ انقلاب نے حکومت مخالف مظاہروں کے پسِ پردہ امریکا،اسرائیل اور سعودی عرب کا ہاتھ بتایا ہے ٹھیک ہے ایران کے امریکا ،اسرائیل اور سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران میں بسنے والے یہودیوں کو آبادی سے زیادہ سیاسی کردار حاصل ہے اور وہ حکومتی امور تک رسائی رکھتے ہیں علاوہ ازیں تیسرے فریق کی وساطت سے ہی سہی مگر اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اسرائیلی اسلحہ ایرانی سپاہ کے استعمال میں آرہا ہے اِس لیے اسرائیل کو زمہ دار ٹھہرانا قرین قیاس نہیں لگتا جبکہ سعودی عرب خود مشکلات کا شکار ہے وہ موثر دخل اندازی کی پوزیشن میں نہیں مگراریران نے سعودیہ کو تباہ کرنے کی دھمکیاں کر غیروں کو دخل اندازی کا موقع دیا ہے جو ہر گز دانشمندی نہیں۔ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب سے ریاض اورتہران چپقلش میں اضافہ ہوا ہے دونوں ممالک اگر بات چیت کے زریعے مسائل کا حل تلاش کریں تو تیسری قوت کو مداخلت سے روکا جا سکتا ہے اور دو برادر اسلامی ممالک میں اشتعال سے پریشان مسلم امہ زیادہ یکسوئی سے مسائل کے خاتمے پر توجہ دے سکے گی۔

کچھ لوگ ایرانی بیداری کو عرب بہار کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں جو بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ جن عرب ممالک میں حکومتوں کے خلاف عوام نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا اُن ممالک میں بادشاہت تھی مگر ایران میں جیسی بھی سہی جمہوریت ہے اور صدارتی انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے عوام کو ناقص کارکردگی پر محاسبے کا موقع مل جاتا ہے عرب ممالک سے بہتر ایران میں شخصی آزادیاں ہیں لیکن یمن ،شام ،لبنان ہر جگہ سینگ اڑانے کی پالیسی اوراقتصادی پابندیوں نے ایران کی معاشی حالت پتلی کر دی ہے جس کی بنا پر اُسے ملک میں تیل کی قیمتوں میں پچاس فیصد تک اضافہ کرنے اور غریب لوگوں کو مالی مدد میں کمی کا تلخ فیصلہ کرنا پڑا ہے سرمایہ کاری نہ ہونے سے روزگار کے مواقع محدود ہو چکے ہیں جس سے بے روزگاری کی شرح تیرہ فیصد سے تجاوز کرنے لگی ہے تہران جیسے شہر میں لوگ قبرستانوں میں سونے پر مجبور ہیں ظاہر ہے اِس کا زمہ دار خود ایران ہے کوئی اور ملک نہیں اگر وہ اپنے اثر میں اضافے کے لیے وسائل ضائع کرنے کی بجائے ملکی دولت عوام کی بہتری پر صرف کرے تو ملک میں سیاسی و معاشی استحکام آ سکتا ہے ایران کی ایک خوش قسمتی ہے کہ کوئی ہمسایہ ملک معاندانہ عزائم نہیں رکھتا پاکستان ہر حال میں پُرامن،خوشحال اور مضبوط ایران کی پالیسی پر گامزن ہے ترکی بھی مظاہروں کی حوصلہ افزائی نہیں کررہا کیونکہ کرد علاقے اگر علیحدگی کی طرف آتے ہیں تو لامحالہ ترک کرد علاقے بھی متاثر ہونگے ۔

دو سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ ایران میں اُٹھنے والی احتجاجی لہر اکیس کے قریب جانیں لے چکی ہے جواب میں حکومت کے حامی بھی سڑکوں پر آئے لیکن آزری اور فارسی نفرت کا رنگ صاف نظر آتا ہے پورے ملک میں اُٹھنے والی احتجاجی لہر سے قم اور مشہد جیسے شہر بھی محفوظ نہیں رہے ایسی نوبت کیوں آئی ایرانی قیادت کو غور وفکر کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو موقع کی تاک میں رہنے والا امریکا کوئی چال چلنے میں کامیاب ہو جائے پہلے ہی مسلم امہ زوال پذیرہے اگر ایران جیسا قدرے مضبوط ملک شکست و ریخت کا شکار ہوتا ہے تو یہ نقصان نہ قابلِ تلافی ہو گا مگربات پھر وہی ہے کہ مسائل پر کیسے قابوپانا ہے اور اغیار کی سازشوں کا کیسے توڑ کرنا ہے؟ یہ کام ایرانی قیادت نے کرنا ہے۔

ٹرمپ کو ٹویٹ کے سہارے تنقید کا خبط ہے وہ ایرانی عوام کے لیے فوڈا ورفریڈم کی باتیں کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ایرانی عوام کو غربت کی طرف دھکیلنے میں زیادہ ہاتھ امریکا کا ہے جو پابندیاں لگا کر تہران کو دباؤ میں لانے کے لیے کوشاں ہے اپنے ملک میں مظاہروں پر تڑپ اُٹھنے والے ٹرمپ آجکل تعصب کے خاتمے کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن امریکا میں ہر سال بغیر جرم کتنے سیاہ فام سیکورٹی اِداروں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں شاہد انھیں نظر نہیں آتا اپنے ملک میں سیاہ فاموں پر سفیدنسل کی برتری جائز تصور کرتے ہیں لیکن مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہوئے کچلنے کا عزم ظاہر کرتے نہیں ہچکچاتے اِس لیے ایرانی عوام کو امریکی سازشوں کا ادراک کرتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا کیونکہ جہاں بھی آزادی دلانے کے لیے امریکا نے مداخلت کی ہے وہ ملک عبرت کا نشان بن گئے افغانستان، عراق، لیبیا واضح مثال ہیں سب سے زیادہ زمہ داری قیادت کی ہوتی ہے خامنہ ای اور روحانی کیاپالیسی اپناتے ہیں اُسی سے ایران کے بہتر یا خراب مستقبل کاتعین ہو گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں