ایس ایس پی راﺅ انوار کو کس بات کی جلدی ہے؟
شیئر کریں
رواں سال دسمبر میں ملازمت سے 60 سال عمر پوری کرکے ریٹائرڈ ہورہے ہیں، باقی ماندہ وقت کارآمد بنانے کے لیے کوشاں
عقیل احمد
کراچی آپریشن میں بہت سے افسران نے نام کمایا مگر سب سے زیادہ فائدے میں راﺅ انوار ہی رہے۔ وہ کئی خصوصیات کے مالک بھی ہیں۔ کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کے کئی جرائم پیشہ کارکن گرفتار کیے یا پھر مقابلوں میں مار دیئے‘ پھر انہوں نے مقتدر حلقوں میں بھی اپنے تعلقات استوار کیے اور اب وہ تعلقات میں بہت اونچی مچان پر بیٹھ کر شکار کرتے ہیں۔ تیسری جانب اُنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے تعلقات اُستوار کرلیے‘ سابق صدر آصف علی زرداری زیادہ وقت جیل میں گزارچکے ہیں۔ اس لئے ان کے مقدمات اور عدالتی پیشیوں میں راﺅ انوار ان کے آگے پیچھے ہوتے تھے ۔یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ جس ٹیم نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے کو پکڑکر پھر مقابلے میں مار ا تھا، اس کے سربراہ بھی راﺅ انوار ہی تھے۔
راو¿ انوار پر پی پی قیادت کی زمینوں پر قبضوں اور دیگر کاروبار میں بھی معاونت کےے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ راو¿ انوار آﺅٹ آف ٹرن پروموشن لیتے لیتے ایس ایس پی بن گئے پچھلی حکومت میں یعنی 2008 میں ان کا آﺅٹ آف ٹرن پروموشن ختم کرکے ڈی ایس پی بنادیا گیا تھا لیکن پھر حکومت سندھ نے چند ماہ بعد ان کو ایس پر ترقی دیدی راﺅ انوار زیادہ تر ملیر اور ایسٹ میں رہے ہیں۔ وہ ضلع وسطی میں اپنی تعیناتی کے دوران میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں سرگرم تھے ملیر اور شرقی میں پوسٹنگ کی وجہ سے وہ زمینوں پر قبضوں اور پانی کے کاروبار میں بے تاج بادشاہ بن گئے ہیں انہوں نے سینکڑوں ایکڑ زمین پر آبادیاں قائم کرائیں اور اب وہ تیسری بار ایس ایس پی ملیر بنے ہیں آخر راو¿ انوار کی ملیر ضلع میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ابراہیم حیدری سے لیکر سپر ہائی وے اور منگھوپیر تک ضلع ملیر کی حدود ہیں اور وہ زمینوں کی ایسی تفصیل یاد رکھتے ہیں جیسے وہ خود ریونیو افسر ہوں۔ ان کو جب خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کے وقت ہٹایا گیا تھا تو اس وقت ضلع ملیر اور ضلع شرقی کے تھانوں میں تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ سچل تھانہ‘ سہراب گوٹھ اب وہ ضلع ایسٹ کو دے دیے گئے جب راﺅ انوار واپس آئے تو سب سے پہلے انہوں نے آرڈر نکلتے ہی چارج لیا دوسرے روز انہوں نے تمام ایس ایچ اوز کو تبدیل کردیا اور ان ایس ایچ اوز کو لگوایا جو تھانوں کو خوشحال رکھنے میں زیادہ تگڑے سمجھے جاتے ہیں۔ اب وہ ان تھانوں کی واپسی کیلئے سرگرم ہیں جو منفعت کے اعتبار سے زیادہ بیش قیمت سمجھے جاتے ہیں۔
راﺅ انوار اتنے طاقتور ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ‘ چیف سیکریٹری‘ آئی جی‘ ایڈیشنل آئی جی کراچی کو خاطر میں نہیں لاتے وہ صرف سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے دو اسٹاف افسران کرنل (ر) بابر اور نیوی کے سابق لیفٹیننٹ کمانڈر (ر) جلال کے علاوہ کسی چوتھے بندے سے بات نہیں کرتے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ماڈل ایان علی کو مکمل پروٹوکول دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اب جب وہ تیسری مرتبہ ایس ایس پی ملیر بنے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اور اتنی جلد بازی میں وہ سارے نامکمل کام کیوں مکمل کرانا چاہتے ہیں؟ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ وہ رواں سال دسمبر میں ملازمت سے 60 سال عمر پوری کرکے ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور وہ آخری سال کو اپنے لیے بہت کارآمد بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے پوری لینڈ مافیا اور ریتی بجری مافیا کو ملیر میں جمع کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ کسی کی بھی پرواہ نہ کریں اپنا کام جاری رکھیں۔ اس کے بعد اب کیا ہوا کہ لینڈ مافیا نے جن کے کھاتے ہیں ریونیو ریکارڈ سے ان کی زمینوں پر بھی قبضے شروع ہوگئے ہیں۔ راﺅ انوار کو بس دن رات یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ وہ اس سال ریٹائرڈ ہوجائیں گے اس کے بعد ان کا رعب ودبدبہ بھی ختم ہوجائے گا اور وہ سابق پولیس افسر بن کر رہ جائیں گے۔ بس اس بات نے ان کو اتنا پریشان کردیا ہے کہ شاید اس کی مثال بھی نہ مل سکے‘ راﺅ انوار کو تو اب حکومت سندھ اور سندھ پولیس نے بھی کہنا چھوڑ دیا ہے اور وہ اب مکمل طورپر خود مختار ہیں اور جیسے چاہیں اپنی مرضی سے راج کریں۔ ایک پولیس افسر کے دفتر میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وہاں باقاعدہ زمینوں کو سمجھنے والے ایجنٹ بیٹھے رہتے ہیں۔ یہ ایجنٹ پر اُلٹے کام کو سیدھے کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ اگر وزیراعلیٰ اور آئی جی سندھ تک شکایت جاتی ہے تو وہ اس پر راﺅ انوار سے پوچھنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اب وہ دسمبر 2017 میں 60 سال عمر پوری کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ انہیں ملازمت کے آخری سال میں 24 گھنٹے اپنا ”کام “جاری رکھنے کا جنون ہے ۔ راﺅ انوار کو سابق صدر آصف علی زرداری کی حمایت حاصل ہے اس کو اس طاقت نے مطلق العنان بنادیا ہے لیکن ایک قانونِ مکافات عمل بھی تو ہے۔