نورِ مجسم رحمتِ عالم کی زندگی سے چند تصویریں
شیئر کریں
علامہ محمد احسان صدیقی
نصبِ حجرا سود
آپ ﷺ کی ابتدائی زندگی میں خانہ کعبہ کی تعمیر نوکے دوران حجراسود کی تنصیب کے موقع پر قبائل عرب میں شدید نزاع و اختلاف پیدا ہوا۔ قریب تھا کہ قبائل کے درمیان تباہ کُن جنگ چھڑ جائے کہ کسی ذی عقل نے تجویز دی کہ کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے حرم شریف میں داخل ہوگا وہ ہمارا حکَم (فیصلہ کرنے والا )ہوگا،قبیلوں کے سرداروں نے یہ تجویز مان لی ۔ قدرت الٰہی کی طرف سے حضور سرور کائنات ﷺ ہی کو یہ شرف حاصل ہوا تھا ۔ آپ سب سے پہلے حرم میں داخل ہوئے۔ جب سردار ان قریش آئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ تشریف فرما ہیں۔ سب نے متفقہ طور پر آپ ﷺ کو اپنا حَکم مقرر کیا۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ ایک چادر لائی جائے اور تمام قبائل سے ایک ایک نمائندہ منتخب کیا جائے جو چادر کے سِرے پکڑلے ، نمائندوں نے چادر پکڑلی حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے حجراسود کو پہلے چادر میں رکھا اور دیوارِ کعبہ تک نمائندوں نے اٹھایا اور حضور ﷺ نے حجرا سود کو اپنے دست مبارک سے دیوار میں نصب فرمادیا۔ اس فیصلے نے قبائل کو ممکنہ جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے بچالیا۔ حضور اکرم ﷺ مکی و مدنی زندگی میں ہر مہم ، نازک مرحلہ اور پیچیدہ مسائل کے موقع پر بلا خوف لومتہ لائم فیصلے فرماتے اور کسی کی طرفداری نہ ہوتی جو امرحق ہوتا اس کے مطابق ہی فیصلے ہوتے۔
یہودی اور مسلمان کے درمیان فیصلہ
ایک بار ایک یہودی اور مسلمان میں جھگڑا ہوا یہودی نے تجویز کیا کہ یہ مقدمہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں رجوع ہو۔ جو فیصلہ ہوگا اس پر عمل کروں گا۔ چنانچہ یہ معاملہ حضور ﷺ اکرم کے پاس پہنچا آپ نے مقدمہ کی تحقیقات فرمائیں ، یہودی بے قصور ٹھہرا،آپ ﷺ نے فیصلہ اس کے حق میں صادر فرمایا۔
بدگمانی نہ کرو
حاطب ابن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی تھے۔ ان سے ایک سخت غلطی ہوگئی۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ، اللہ کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے ۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان کی گردن اڑادوں حضور ﷺ نے حاطب کو بلایا اور پوچھا”تم نے ایسا کیوں کیا؟“
حاطب نے جواب دیا: ©”اللہ کی قسم ! میرے ایمان میں کوئی خرابی نہیں۔ میں نے جو کچھ کیا وہ صرف مکے میں اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کے خیال سے کیا ۔ میں کافروں پر ایک احسان کرنا چاہتا تھا کہ اس کے بدلے میں میرے بیوی بچے محفوظ ہوجائےں“۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ ”حاطب سچ کہتے ہیں، ان کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال کرو، بدگمانی نہ کرو“۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر کہا کہ انہوں نے اللہ ، اللہ کے رسول ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے مجھے اجازت دیجئے کہ ان کی گردن اڑادوں“۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:©©کیا یہ بدر میں نہیں تھے ؟ کوئی بات تو ہے جو اللہ نے اہل بدر کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ جو چاہو کرو کیوں کہ جنت تمہاری قسمت میں لکھی جاچکی ہے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بول اٹھے ! ”بے شک“ ۔
اپنے پیروکاروں کوماتحتوں سے اچھے رویے کی نصیحت
حضور ﷺ کے ایک صحابی ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو اسلام کے شروع دنوں ہی میں ایمان لائے ۔ حضور ﷺ ان کی سچائی کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی بات پر ناراض ہو کر انہوں نے اپنے ایک غلام کو برابھلا کہا۔ اس غلام کو بہت رنج ہوا وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکایت کی۔ حضور ﷺ نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا بھیجا۔ جب وہ آئے تو حضور ﷺ نے غلام کے ساتھ ان کے اس برتاﺅ پرناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔آپ ﷺ نے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: ”تم میں اب تک جہالت باقی ہے ،یہ غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے تم کو ان سے بڑا درجہ دیا ہے ۔ اگر تم ان سے خوش نہیں ہو تو ان کو الگ کردو۔ اللہ کی مخلوق کوستایا نہ کرو۔ جو خود کھاﺅ وہ ان کو کھلاﺅ ،جو خود پہنو وہ ان کو پہناﺅ ،ان کو اتنا کام نہ دو جو وہ نہ کرسکیں اور اگر اتنا کام دو تو خود بھی ان کے ساتھ لگ جاﺅ۔ اسی طرح ایک بار حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی ”ابو مسعود! تم کو جس قدر اس غلام پر اختیار ہے اس سے زیادہ اللہ کو تم پر اختیار ہے ۔ ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھبراگئے پھر جلدی سے بولے یا رسول اللہ ﷺ میں نے اللہ کے لیے اس غلام کو آزاد کیا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرتے تو جہنم کی آگ تمہیں چھولیتی۔
چوری کی سزا
ایک ہاشمی خاتون نے چوری کی ۔نبی کریم ﷺ نے واقعات کی جانب پڑتال فرما کر چوری کرنے والی خاتون کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ دیا ۔ منافقین اور کفار کو علم ہوا تو انہوں نے طعن و تشنیع شروع کردی، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم بھی دشمنوں کی حرکت سے متاثر ہو کر مضطرب ہوگئے ۔ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں گزارش کیلیے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ما¿مورکیاگیا، حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کیاکہ حضور ﷺ ! اپنے فیصلہ پر نظر ثانی فرمائیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ”اے زید ! کیا تو یہ چاہتا ہے کہ جس طرح گزشتہ دور میں بڑوں کی سزائیں معاف کرکے چھوٹوں کو مصیبتوں میں مبتلا کردیا جاتا تھا اور جس کی پاداش میں عذاب الٰہی آتا تھا ۔ کیا میں بھی ویسا ہی کروں؟ بخدا اگر یہ فعل میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا ہوتا تو اُسے بھی یہی سزا تجویز کرتا“۔ حضورﷺ کی سیرت طیبہ اسی قسم کے عادلانہ فیصلوں سے معمورہے۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں ہی کے نہیں بلکہ اقوام عالم کے فیصلے اس خوبی سے کیے کہ دنیائے عدل حیران رہ گئی۔ آپ اگرچہ ظاہری طور پر اُمّی تھے۔ مگر حق سبحانی و تعالیٰ کے دربار عالی سے اکتساب علم فرماتے ،آپ کو کائنات عالم کے علوم عطا کئے گئے ۔ آپ ﷺ نے مسائل کے فیصلوں کے لیے قرآن حکیم کی اساس پر اصول متعین فرمائے۔
مسلمان دھوکا نہیں دیتا
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ بازار سے گزررہے تھے ۔ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ غلے کا ڈھیر زمین پر لگائے بیچ رہا ہے ۔ آپ ﷺ اس کے قریب تشریف لے گئے غلے کو دیکھا پھر اس ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو اندر نمی محسوس ہوئی۔ حضورﷺ نے غلہ فروخت کرنے والے سے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ۔ یارسول اللہ ﷺ ! بارش سے بھیگ گیا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اگر بارش سے بھیگ گیا تو اسے چھپایا کیوں اوپر کیوں نہیں رکھا کہ ہر شخص کو نظر آئے؟ پھر آپ نے فرمایا جو لوگ دھوکا دیتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی مسلمان کسی کو دھوکا نہیں دیتا جوبات ہوتی ہے ۔ صاف صاف کہہ دیتا ہے ۔
حضور اکرم نور مجسم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی مبارک زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔ اس کا ہر پہلو بے مثال اور ہر دور بے نظیر ہے ۔ آپ ﷺ کی زندگی غریب امیر، چھوٹے بڑے، حاکم محکوم، دوست دشمن ، تاجر مزدور، قاضی مفتی، سپہ سالار سپاہی میں سے ہر ایک کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ہر حیثیت سے بے مثال کردار دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے ۔ ایک یتیم بچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی محنت کے ساتھ اعلیٰ درجے کا کامیاب تاجر بنا اور اپنی دیانتداری سے”الامین“ اور سچائی سے ”الصادق“ کہلایا۔ بت پرستوں کے دیس میں پیدا ہوا لیکن توحید کا علم بلند فرمایا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میںا یک انقلاب عظیم برپا ہوگیا۔
ثابت قدمی اور استقلال کا یہ عالم کہ ہزاروں صعوبتیں برداشت کیں لیکن قدم تبلیغ اسلام کی راہ سے پیچھے نہ ہٹے۔ نہ لالچ ہی قدموں کو ڈگمگا سکی، نہ قوت راستہ سے ہٹاسکی، تدبیر کا یہ عالم تھا کہ ہر مشکل وقت اور ہر کٹھن منزل میں کامیابی نے قدم چومے، محبت کا یہ عالم تھا کہ بچہ بچہ آپ کا شیدا ئی تھا اورہر بڑا اپنی جان آپﷺ پر نثار کرنے کیلیے تیار تھا، اپنے اور پرائے آپ ﷺ پر جان چھڑکتے تھے ، ہر کمزور کو مدد حاصل تھی۔ خواتین کو ذلت سے نکال کر عزت کا مقام دیا، ان کے جائز حقوق دلائے ۔ حسن سلوک کا یہ حال تھا کہ جس نے کوئی نیکی کی تھی ہمیشہ اس پر مہربانیاں کیں، بچپن میں جن کا دودھ پیا اُن کو ماں کی سی عظمت بخشی۔
آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اخلاق کا درجہ کمال اور مقام عروج عطا کیا کہ باری تعالیٰ نے خود آپ ﷺ کے لیے خُلُقٍ عَظِی±م کے الفاظ استعمال کئے اور رسول اکرم ﷺ کوقرآن عظیم الشان کی عملی تفسیر بنا کردنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپ ﷺ کا ہر فعل حکم الٰہی کے تابع اور ہر عمل رضائے خداوندی کے مطابق ہے ۔ آپﷺ کی ذات مستجمع الصفات ہے۔ یہ وہ مقدس ہستی ہے جو آج بھی مسلمانان عالم کے لیے پیکر عمل ہے۔ جس کی سیرت اس دور میں بھی انسانوں کو پر سکون اور مطمئن القلوب زندگی کا لائحہ عمل دے رہی ہے۔