میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سفر یاد (قسط26)

سفر یاد (قسط26)

منتظم
هفته, ۱۰ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan

شاہد اے خان
خداخدا کرکے مغرب کا وقت ہوا، اس دوران خان صاحب بولتے رہے اور ہم سنتے رہے۔ اپنے گاو¿ں کے قصے ، کراچی میں بیتے دنوں کا احوال اور سعودیہ میں گزرنے والے دنوں کی روداد، لیکن خان صاحب کی گفتگو میں تسلسل نہیں تھا،اس لیے ہماری دلچسپی برقرار نہ رہ سکی۔ہم خالی سر ہلاتے رہے جبکہ بولنے کا کام خان صاحب ہی سرانجام دیتے رہے۔مغرب کا وقت قریب ہوا تو ہم نے خان صاحب سے کہا چلیں نماز کے لیے جنادریہ کی جامع مسجد چلتے ہیں۔نماز پڑھ کر ہم نے گلزار کی دکان کی راہ لی ،خان صاحب ہمارے ہمراہ تھے۔گلزارہمیشہ کی طرح خوش دلی سے ملا۔ ہم نے خان صاحب کا تعارف کروایا ، کچھ دیر گپ شپ کی ، اور دکان کے پچھلے حصے میں جا کر بیٹھ گئے۔ خان صاحب کوبھی ہم نے اپنے پاس بلا لیا۔ گلزار اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ خان صاحب ہمارے کان کھائے جا رہے تھے، اب ان کی گفتگو میں کھانا بھی شامل ہو چکا تھا۔ ہم نے گلزار سے پوچھ کر پیاز ،ٹماٹر وغیرہ کاٹنا شروع کر دیئے، خان صاحب بھی کھانے کی تیاری ہوتی دیکھ کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے تھے۔ گلزار نے سالن پکانا شروع کیا ، اس دوران ہم روٹیاں لینے بقالے پر چلے گئے ، ہم خان صاحب کوساتھ نہیں لائے تھے۔ یہ سوچ کر کہ چلو کچھ دیر تو سکون سے گزرے ، بقالے میں ہم نے کچھ زیادہ وقت لگا دیا۔ واپس گلزار کی دکان پر پہنچے تو خان صاحب باقائدہ ناراض ہو چکے تھے ،ان کا کہنا تھا ہم انہیں کیوں ساتھ لیکر نہیں گئے ، شائد گلزار ان کی گفتگو میں شریک نہیں ہوا تھا، وہ سالن پکانے اور اپنے کام میں لگا رہا تھا۔ ہم نے خا ن صاحب سے معذرت کی او ر کھانا لگانا شروع کیا۔ گلزار نے مکس سبزی پکائی تھی جو خان صاحب کو زیادہ پسند نہیں آئی۔ کہنے لگے ”مڑا یہ کیسا پھیکا پھیکا سالن بنایا ہے ،تم کو تو سالن بنانا بھی نہیں آتا“۔ ہم اور گلزار ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ کھانا کھاتے ہی ہم نے واپسی کا ارادہ کیا کیونکہ ہمیں لگ رہا تھا کہ گلزار ہماری وجہ سے پریشان ہو رہاہے۔ ہم نے خان صاحب سے کہا چلیں آپ کو جنادریہ گھماتے ہیں۔ خان صاحب بولے مڑا تمہارے پاس گاڑی تو ہے نہیں کیسے گھمائے گا۔ ہم نے کہا خان صاحب ہمت مرداں مدد خدا ، چھوٹا سا علاقہ ہے ہم پیدل ہی گھوم لیں گے۔ خان صاحب مشکل سے راضی ہوئے۔ ہمارا رخ جنادریہ بازار کی جانب تھا، خان صاحب آہستہ چلتے تھے ،اس لیے ہمیں بھی اپنی رفتار کم رکھنی پڑ رہی تھی۔ ہم نے علاقے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا خان صاحب ویسے تو اس پورے علاقے کو جنادریہ کہتے ہیں لیکن اس آبادی کو نیا آباد ہونے کی وجہ سے جنادریہ جدید کا نام دیا گیا ہے۔ریاض کے مضافات میں واقع اس علاقے جنادریہ میں ہر سال سعودی عرب کا ایک بڑا قومی میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ جنادریہ میلے کا افتتاح سعودی عرب کے بادشاہ خادم حرمین شریفین خودکرتے ہیں۔ بادشاہ سلامت اپنی کابینہ کے اراکین اور شاہی خاندان کے دیگر ممتاز افراد کےساتھ ملکر سعودی عرب کے روایتی رقص میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ جنادریہ کا میلہ دو سے تین ہفتے جاری رہتا ہے۔ روزانہ عصر سے لیکر رات بارہ بجے تک مختلف پروگرام پیش کئے جاتے ہیں جن میں سعودی عرب کی ثقافت پیش کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے ہرصوبے اور علاقے کی الگ الگ ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے الگ الگ پویلین لگائے جاتے ہیں۔ حرمین شریفین کے پویلین کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہ پویلین میلے کا دورہ کرنے والوں اور مذہبی ورثے سے دلچسپی رکھنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتاہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کو مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود کے وقت سے لے کر موجودہ بادشاہ کے زمانے تک کے منصوبوں، پیش رفت کے مراحل اور آئندہ متوقع توسیع کے حوالے سے اہم معلومات حاصل ہو تی ہیں۔ حرمین شریفین کے پویلین میں مملکت کی تاریخ کے دوران پیش رفت کے تمام مرحلوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ان میں ہر سال کروڑوں ریال کی لاگت سے تیار کیا جانے والا غلاف کعبہ، آب زمزم کے کنوئیں کا منصوبہ، غسل کعبہ کے دوران استعمال ہونے والے برتن اور اس کے لیے مخصوص عطر اور خوشبوئیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بہت بڑی اسکرین پر حرمین شریفین کے انتظامی امور اور بعض دیگر خصوصی کارروائیوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی سے متعلق خصوصی تعارفی وڈیو بھی دکھائی جاتی ہے۔ جنادریہ کامیلہ گزشتہ تیس سال سے منعقد ہو رہا ہے۔ پہلے تین یا چار دن صرف مرد حضرات کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور اس کے بعد آخر تک یہ میلہ بمع اہل و عیال کے لیے کھلا رہتا ہے۔ اس دوران اکیلے مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔ جاری ہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں