خالصتان ریفرنڈم اور بھارت
شیئر کریں
سکھ فار جسٹس کوئی مسلح تحریک نہیں یہ پُر امن اور جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اِس تنظیم کے زیرِ اہتمام31 اکتوبر2021سے لندن کے الزبتھ کوئین ہال ٹو سے خالصتان کے کے لیے ریفرنڈم شروع ہو چکا ہے جس میں سکھ قوم جوش وجذبے سے حصہ لے رہی ہے ووٹنگ کے دوران سکھوں کو گاڑیاں کوئین الزبتھ ہال پہنچاتی رہیں بڑی تعداد میں ووٹرآنے سے بڑی بڑی لائنیں بن گئیں غیر جانبدار ماہرین کی زیرِ نگرانی جاری ریفرنڈم سے واضح ہو گیا ہے کہ سکھ بھارتی حکومت سے آزادی پر متفق ہیں اب یہ سمجھنے میں کسی کو دشواری نہیں رہی کہ سکھوں کا ذیادہ دیرمحکوم رکھنا بھارت کے بس کی بات نہیں نہ ہی کوئی ماسٹر تاراسنگھ جیسا کردار اُنھیں منزل جانے والی روش سے ہٹا سکتاہے محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار سے زائد سکھ خالصتان کے حق میں ووٹ ڈال چکے ہیں دوسرے مرحلے میں برطانیہ کے دیگر ایسے شہروں میں بھی ووٹنگ کا عمل ہوگا جہاں سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے کینڈا،امریکااور دیگر یورپی ممالک میں بھی ووٹنگ کرائی جائے گی مرحلہ وار ووٹنگ کا عمل چھ ماہ میں مکمل ہونے کا اندازہ ہے جس کے بعد پنجاب ریفرنڈم کمیشن نتائج کا اعلان کرے گا اِس وقت بھارت میں میں آباد سکھوں کی آبادی اڑھائی سے تین کروڑجبکہ دیگر ممالک میں پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے نریندر مودی نے اپنی آنکھوں سے موسلا دھاربرستی بارش کے باوجود ہزاروں افراد کو عالمی خالصتان ریفرنڈم میں ووٹ ڈالتے دیکھ لیاہے اب بھارت لاکھ جھٹلانے کی کوشش کرے سکھوں کی طرف سے منزل کے انتخاب کا دنیا کو اندازہ ہوچکا ہے۔
ہندوستان میں ہر اقلیت ہندو اکثریت کے ظلم کا شکارہے سکھ بھی تنگ آکر ریفرنڈم کی طرف آئے ہیں آزادی کی یہ تحریک سکھوں کی اپنی سوچ ہے اِس میں بیرونی عوامل کار فرما نہیں اگریہ تحریک خلافِ ضابطہ یا خلافِ قانون ہوتی تو برطانیا ریفرنڈم کی ہر گز اجازت نہ دیتاپاکستان پر الزامات لگا کر بھارت اقلیتوں کا اضطراب چھپا نہیں سکتا پہلی بارکسی بھارتی وزیرِ اعظم نے سکھوں کی نفرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے اگر باوجود کوشش اور دبائو کے وہ برطانوی سرزمین پرریفرنڈم نہیں رکوا یاجاسکاتوسمجھ جانا چاہیے کہ ریفرنڈم کے ساتھ ہی بھارت کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی ہے ۔
سکھ قوم کا 31اکتوبر2021سے الگ وطن خالصتان کے حصول کے لیے جاری ریفرنڈم عالمی زرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میںہے بھارت سے قریبی اور پُرجوش تعلقات کے باوجود برطانیہ کی طرف سے ریفرنڈم میں رخنہ نہ ڈالنے سے اجتناب سے ابتدا بہت اچھی ہوئی ہے ویسے توعرصہ سے خالصتان کے لیے سکھوں کے جوش وخروش سے دنیا آشنا ہے خالصتان کا پرچم اِس کا احسا س دلاتا رہتاہے مگراب ریفرنڈم کے ساتھ سکھوں نے پہلی بار مجوزہ ملک کا نقشہ بھی جاری کردیاہے جس میں پنجاب ،ہریانہ جیسے سکھ اکثریت کے صوبوں کے علاوہ ہماچل پردیش، اُترپردیش اورراجھستان جیسے صوبوںکے سکھ اکثریتی اضلاع کو بھی خالصتان کا حصہ دکھایا گیا ہے اِس ریفرنڈم کے حوالے سے دنیا بھر میں آبادسکھ کافی متحرک اور خالصتان کے لیے نہ صرف سیاسی ،اخلاقی حمایت میں پیش پیش ہیں بلکہ بساط بھر مالی مدد بھی کر رہے ہیں جس سے خالصتان تحریک کو تقویت مل رہی ہے مغربی زرائع ابلاغ نے بھی اِس تحریک کو سنجیدہ لینا شرو ع کردیاہے اوراچھی کوریج دینے لگے ہیں کیونکہ سکھ فار جسٹس تحریک طویل جدوجہد سے دنیا کوکچھ حد تک یہ باورکرانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق محفوظ نہیں اور اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ کاروائیاں جاری ہیںااِس لیے اگر عالمی طاقتیں کاروباری مفادات اور چین کے گھیرائو جیسے معاملات کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو خالصتان کے قیام اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی منزل آسان ہو سکتی ہے۔
سکھوں کو کئی دہائیوں سے ظلم کاسامنا ہے وزیرِا عظم اندراگاندھی کے حکم پر 5جون1984کو بھارتی فوج نے سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی اِس دورن بکتر بند گاڑیاں اور ٹینکوںکابے دریغ استعمال کیا گیا سکھوں کے خلاف اِس کاروائی کو آپریشن بلیو سٹار کا نام دیا گیاجس کے دوران عبادت میں مصروف ہزاروں سکھ بچوں ،بوڑھوں ،جوانوں اور عورتوں کو گولیوں سے اُڑادیا گیا آپریشن کے لیے مزہبی تہوار کے دنوں کابھی ا نتخاب جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ عبادت گاہ میںموجودہزاروں زائرین کو ایک ہی حملے میں ماراجا سکے حالانکہ کھانے پینے کی رسد روک کر سرنڈر کرانے کاآپشن موجود تھایہ آپریشن سکھ فوجیوں میں بغاوت کا باعث بنا جسے کچلنے کے لیے بھارت نے اپنے ہی سینکڑوں سکھ فوجی مار دیے ظالمانہ قتل و غارت اور عبادت گاہ کی بے حرمتی کی پاداش میں 31 اکتوبر 1984کووزیرِ اعظم اندرا گاندھی فتر جاتے ہوئے اپنے ہی سکھ محافظوں کے ہاتھوں ماری گئیں یکم نومبر1984 کوایک بار پھر حکومتی سرپرستی میں سکھوں کی منظم نسل کشی کی گئی پولیس کی معاونت سے ہندو بلوائیوں نے چند دنوں میں آٹھ سے دس ہزار سکھوں کی جان لے لی اِس ظلم پرآج تک کسی سکھ خاندان کو انصاف نہیں مل سکا راجیو گاندھی نے سکھوں کی منظم نسل کشی پربے حسی سے کہا کہ جب بڑا درخت گرتا ہے تو زمین تو لرزتی ہی ہے بعدازاں راجیو گاندھی کو ایک تامل عورت نے خود کش دھماکے میں ہلاک کر دیا ۔
سکھوں کی سادگی کا ہندوئوں نے خوب فائدہ اُٹھایا ہے قیام پاکستان کی تحریک کے دوران سکھوں کو ساتھ رکھنے کے لیے یقین دہانی کرائی گئی کہ پنجاب بڑی حد تک خود مختار ریاست ہو گی لیکن سکھ اکثریت کو تقسیم کرنے کے لیے 1966کی مردم شمار کے بعدپنجاب سے مزید دو نئے صوبے ہریانہ اور ہماچل پردیش بنا دیے گئے سکھوں کے استحصال کا اندازہ اِس بات سے ہوتا ہے کہ تقسیم کے بعد بھی ساٹھ فیصد سکھ آبادی والے صوبے پنجاب میں1967تک کوئی سکھ وزیرِا علیٰ نہ بن سکا بلکہ آزادی کے بیس برس بعد بھی ہندو ہی وزیرِاعلیٰ بنتے رہے جوسکھوں میں مزید مایوسی کا موجب بنا 1970 میںحکومتی ظلم و جبر کی وجہ سے سکھوں میںبیرونِ ملک امیریکہ۔ کینڈا ،آسٹریلیاسمیت مغربی ممالک جانے کے رجحان نے جنم لیا اوراب تک کم وبیش پچاس لاکھ سکھ انڈیا چھوڑ کر دیگر ملکوں میں آباد ہیں دراصل یہی آبادکاراصل میں سکھ تحریک کے روح رواں،طاقت اور خالصتان تحریک میں پیش پیش ہیں۔
بھارتی حکومت کوسکھوں نے 1973میں تقسیم کے دوران پنجاب کی خودمختاری کے حوالے سے کرائی گئی یقین دہانیاں یادکرانے کی باقاعدہ تحریک چلائی لیکن مطالبات ماننے کی بجائے اُلٹاسکھوں کا ہی استحصال کرنا شروع کر دیا تنگ آکر بارہ اپریل 1980میں ممتاز سکھ رہنما جگجیت سنگھ نے نیشنل کونسل آف خالصتان بنائی ایک ماہ بعد مئی 1980میں سردار بلبیر سنگھ سندھو جیسے پُرجوش اور دلیر رہنما نے امرتسر میں خالصتان کا جھنڈا ،کرنسی سکے اورڈاک ٹکٹ متعارف کرادیے جس سے خالصتان تحریک کو بہت پزیرائی ملی کئی سکھ رہنما بیرونِ ملک اہم سیاسی عہدوں پر بھی ہیں مثال کے طورپرکینڈا کا وزیردفاع بھارتی نژاد سکھ ہے جس نے جون 2017 میں گولڈن ٹیمپل کی یاد میں احتجاجی مظاہرہ کرایا مظاہرے کی خاص بات یہ ہے کہ کینڈین وزیرِ اعظم نے بھی خالصتان کے پرچم کے رنگ کا سرپر کپڑا باندھ کر شرکت کی 31 اکتوبر2021کا ریفرنڈم سکھوں کی ایسی عالمی تحریک اختیار کر گیاہے جسے روکنا یا ناکام بنانابھارتی حکومت کے بس کاکام نہیں رہا مسلح جدوجہد کی آڑ میں مارے گئے ہزاروںسکھ نوجوانوں کے خاندان اپنے دکھوں کا مداوا الگ وطن سمجھتے ہیںسچ یہ ہے کہ آزاد وطن کے حصول کے لیے موجودہ ریفرنڈم خالصتاََ سکھوں کی اپنی تحریک ہے جس میں کوئی بیرونی عوامل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔