خواتین کے چند فرائض اور ساس بہو کے جھگڑے کا حل
شیئر کریں
ندیم الرشید
” اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس کی عورتیں پیدا کیں‘ تاکہ تم ان کی طرف سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و مہربانی پیدا کردی اور جو لوگ غورو فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان باتوں میں نشانیاں ہیں“۔ (سورة الروم آیت 21)
اس آیت کریمہ میں خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا کہ عورتیں مردوں کے لیے راحتِ جان اور سکون کا ذریعہ ہیں اور ہم نے دونوں کے درمیان محبت الفت اور مو¿دت و رحمت کو پیدا کردیا ہے۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام کو وجود بخشا‘ آدم کائنات کے اولین انسان تھے۔ آدم کے رب نے حوا کو پیدا فرماکر وجود آدم کو سکون بخشا اور یوں وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ بھر دیے۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا۔ معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کیا۔ وراثت میں حصہ دیا۔ پردے کا حکم فرما کر غلیظ نگاہوں سے محفوظ کیا۔ اس کی پیدائش کو باعث رحمت قرار دیتے ہوئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”جس کے گھر میں دو بچیاں پیدا ہوئیں اور اس نے ان کی اچھی تربیت کی تومیں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ آقا علیہ السلام نے بیوی کے بارے میں تعلیم دیتے ہوئے فرمایا :جیسا تم کھاو¿ ویسا ان کو کھلاو¿ جو تم پہنتے ہو ویسا ان کو پہناو¿۔ ان کو گالی مت دو اور ان کو چہرے پرمت مارو ‘ ماں کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ بیوہ عورت کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا:”بیوہ اور غریب کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اللہ کی راہ کے مجاہد کی طرح ہے اور اس کی طرح ہے جو دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر نماز پڑھے ۔ (بخاری) ۔ اسی طرح عورت کی عفت اور آبرو پر تہمت لگانے کے بارے میں فرمایا کہ ایسا کرنا سو برس کے اعمال کو برباد کردینے کے لیے کافی ہے ۔ (طبرانی)
قارئین مکرم!
اسلام جہاں عورتوں کے حقوق بیان کرتا ہے وہاںان کے فرائض کے بارے میں بھی بات کرتا ہے۔ پہلا فرض یہ ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں قرار پکڑیں۔ سورة احزاب کی آیت نمبر 33میں ہے: اپنے گھروں میں قرار کے ساتھ رہو اور (غیر مردوں) کو بناو¿ سنگھار دکھاتی نہ پھرو‘ جیسا کہ پہلی جاہلیت میں دکھایا جاتا تھا۔ آج عورتیں جس طرح کے مصائب‘ مسائل اور مظالم کا سامنا کررہی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عورت کو عزت واحترام کے پردوں میں سنبھال کر رکھنے کی بجائے اشتہاروں میں عیاں کرکے چوکوں، چوراہوں اور بازار میں آویزاں کیا جارہا ہے ۔ لہٰذا نفسیاتی طور پر لوگ ایسے بیمار ہورہے ہیں کہ اب ہر عورت کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے وہ اشتہار میں پیش کی جاتی ہے اور دیکھی دکھائی جاتی ہے۔
دوسرا فرض عورتوں کے لیے یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں، اپنی ناموس کی حفاظت کریں اور جب گھر سے نکلیں تو سراپا حیا بن جائیں ۔ارشادِ ربانی ہے: اور مومنہ عورتوں سے کہہ دو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی ناموس کی حفاظت کریں(سورة نور آیت نمبر 31) اور اگر وہ ایسا نہ کریں گی تو جنت تو دور کی بات ہے وہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گی۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے”بعض عورتیں ایسی ہوں گی کہ کپڑے پہن کر برہنہ نظر آئیں گی۔ یہ جنت میں نہیں جاسکتی اور نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکتی ہیں حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے سونگھی جاسکتی ہے۔
تیسرا فرض یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر دروازے پر کوئی اجنبی مرد آئے تو ان کے ساتھ نرمی اور نزاکت کے ساتھ بات نہ کریں بلکہ لہجے میں سختی اور آواز میں ترش روئی پیدا کریں ۔ سورة احزاب کی آیت نمبر 32میں ذات لم یزل کا ارشاد ہے۔ پس تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو کہ کبھی کوئی ایسا شخص بے جا لاڈکرنے لگے جس کے دل میں روگ ہو ،بلکہ صاف سیدھی بات کہو ۔
چوتھا فرض یہ بیان فرمایا کہ عورت اپنے شوہر کی تعظیم کرے‘ خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے۔ ترمذی شریف کی روایت ہے اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ کسی کو سجدہ کرو تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ ابن ماجہ کی روایت ہے تقویٰ کے بعد نیک صالح عورت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے کہ شوہر اسے جو کہے وہ مانے‘ شوہر جب اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کردے اور شوہر اسے قسم دے کر کچھ کہے تو وہ اس کی قسم پوری کردے اور شوہر گھر پر نہ ہو تو اپنے آپ کی اور اس کے مال کی پوری حفاظت کرے۔ آپ نے اچھاسلوک کرنے والے شوہروں کی ناشکری سے بچنے کا حکم دیا ہے اس طرح عورت کو چاہیے کہ گھر کے کام کاج خود کرے۔ آج بعض خواتین یہ کہتی ہیں کہ ہمارے ذمہ تو بس فلاں کام ہے باقی کام ہماری ذمہ داری نہیں ہیں ۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھر کا سارا کام کاج خود کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ جب انہوں نے آپ علیہ السلام سے گھر کے کام کے لیے”غلام“ عطا فرمانے کا کہا تو آپ علیہ السلام نے انہیں ایک تسبیح پڑھنے کا تحفہ عطا فرمایا۔ کیا عصر حاضر کی یہ خواتین حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ شرعی اعتبار سے عورتوں کے حقوق وفرائض کا علم رکھتی ہیں؟
اسی طرح سے آج کل یہ مسئلہ بھی بہت زیادہ پیش آرہا ہے کہ شادی شدہ خواتین ساس کی خدمت نہیں کرنا چاہتی اور اس پر مستزادیہ کہ حضرات علمائے کرام کے پاس سوالات آتے ہیں کہ کیا ساس کی خدمت عورت کی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عورت جو آج بوڑھی ساس کی خدمت کرنے نہ کرنے کا فتویٰ مانگنے آئی ہے کیا یہ ہمیشہ جوان رہے گی؟ کیا یہ زندگی میں کبھی ساس نہیںبنے گی؟ کیا اسے بڑھاپے میں کبھی شفقت ،محبت سہارے کی ضرورت نہیں ہوگی؟ ساس حدیث شریف کے مطابق ماں ہے چاہے وہ لڑکے کی ساس ہو یا لڑکی کی ، دونوں کو چاہیے کہ اپنی ساس کو اپنی ماں سمجھیں جس طرح ہماری ماں ہمیں ہمارے کہنے پر نہیں ملی بلکہ جو ہماری تقدیر میں لکھی تھی وہی عورت ہماری ماں بنی اور ہم نے اسے دل سے قبول کرلیا، اس کے بارے میں کبھی کوئی فتویٰ نہیں لیا۔ اسی طرح جو عورت ہماری تقدیر میں ساس تھی وہی ہمیں ملی ، یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو ہمیں قبول کرنا چاہیے اور اس پر کوئی فتویٰ کی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ساس بہو کے جھگڑے ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ ساس ‘ شوہر‘ بیوی اور ماں باپ انسان کو اپنی تقدیر سے ملتے ہیں اور تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے‘ تقدیر سے لڑنے والے خدا سے جنگ کرتے ہیں ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جب میں بہو تھی تو مجھے ساس اچھی نہ ملی اور جب میں ساس بنی تو مجھے بہو اچھی نہ ملی دراصل خدا کے فیصلے کے خلاف ناراضی کا اظہار ہے ۔ ساس اور بہو کو چاہیے کہ تقدیر کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کریں اور خدا کا شکر ادا کریں ، خدا کے شکر سے اللہ کی طرف سے برکات رحمتیں اور آسانیاں نازل ہوتی ہیں۔
عورت کا پانچواں فرض یہ ہے کہ اولاد کی بہترین تربیت کرے۔ اگر بچہ ماں کی تربیت سے محروم رہے گا تو کبھی معاشرے کا بہترین فرد ثابت نہ ہوسکے گا۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے آپ علیہ السلام نے فرمایا جو عورت ذی مرتبہ اور خوبصورت ہونے کے باوجود اپنے یتیم بچوں کی تربیت و پرورش کی خاطر نکاح نہ کرے وہ عورت قیامت کے دن میرے یوں قریب ہوگی جیسے یہ دو انگلیاں ۔ اسی طرح فرمایا بچے کو ماں کے دودھ پلانے میں ہر گھونٹ کے چوسنے پر ایک جان کوموت سے بچانے کا ثواب ہے۔
قارئین کرام!آج کے خطبے میں خواتین کے کچھ فرائض اور ساس بہو کے جھگڑے کے حل کے عنوان سے آپ علیہ السلام کے فرامین اورذات لم یزل کے پاک کلام کی روشنی میں کچھ رہنما اصول کی باتیں عرض کی گئیں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کو بھی یاد رکھنا چاہیے ۔شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض شریعت کی روشنی میں ادا کرتارہے، عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرتی رہے اس سے خود بخود ایک دوسرے کے حقوق ادا ہوتے رہیں گے۔ اسلام کا دائرہ صرف قانون کا نہیں ہے، اخلاقیات کا بھی اس میں بہت بڑا حصہ ہے جس پر مکمل عمل کرکے معاشرے کو امن و آتشی کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔