کتابیں بہترین رفیق ہیں
شیئر کریں
ریاض احمد چودھری
کتاب کے ساتھ ہم مسلمانوں کو ایک خاص تعلق ہے۔ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلا اِرشاد ِ خداوندی ا±ترا وہ یہی تھا کہ "پڑھ” اور یہ اللہ تعالٰی کی نوازشات کی انتہا تھی کہ غارِ حرا کے ا±س نورانی لمحے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو "علم کا شہر” بنا دیا اور ا±نہیں ایک عظیم کتاب کا حامل اور مبلغ قرار دیا۔ وہ کتاب جو سعادتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے۔ گویا مسلمان دینی نقطہِ نظر سے اور وراثت کے اعتبار سے صاحبِ کتاب بھی ہے اور کتاب دوست بھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہم مسلمان انفرادی طور پر مجموعی لحاظ سے عظیم کتب خانوں کے مالک رہے ہیں۔ کتب خانے کسی قوم کی علمی عظمت اور فکری بصیرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں۔ مخالف قوموں نے جب بھی مسلمانوں پر یلغار کی تو ا±س یلغار کی زَد میں ہمارے جسم ہی نہیں آئے، ہمارے کتب خانے بھی آئے ہیں۔تاتاریوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینار بھی تعمیر کیے مگر ا±س کے ساتھ ہمارے قیمتی کتب خانوں کو دریاﺅں میں غرق بھی کر دیا تاکہ مسلمان فکری، عِلمی اور ادبی لحاظ سے م±فلِس ہو کر رہ جائیں۔ اِس سلسلے میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کہتے ہیں؛
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباءکی
جو دیکھیں ا±ن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
ہمارے مخالفین نے ہمیں یوں بھی ل±وٹا کہ وہ ہماری کتابوں کو یورپ کی لائبریریوں میں لے گئے اور وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھیں اور ا±ن سائنسی تحقیقات کی بنیادو ں پر ا±نہوں نے اپنی زمین کو آسمان بنا دیا اور ہم ا±ن کی ترقی کو حیران نظروں سے دیکھتے رہے حالانکہ اہلِ مغرب کی سائنسی ترقی میں ہمارے اجداد کے خونِ جگر کی س±رخی جھلکتی ہے۔
کتب خانے ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کتابوں کی د±نیا میں نہ صرف اپنی کلفتوں کو بھول جاتا ہے بلکہ ا±س کی سوچ میں وسعت بھی آ جاتی ہے، ا±س کا دامن عِلم کے ساتھ ساتھ فضیلت کے موتیوں سے بھر جاتا ہے کیونکہ ا±س کے اند ایک شعور پیدا ہوتا ہے۔ جس قوم کے افراد علم و فَضل کی دولت سے بہرہ وَر ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنے باپ دادا کی ا±ن تصنیفات کو ک±تب خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں جن کو زمانے کی گردش سے خطرہ ہوتا ہے، ویسے بھی تاریخ ا±نہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے عِلمی سرمائے کی حِفاظت کرنا جانتی ہے۔
مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا، اکثریت کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ انسان کے لیے ذاتی لائبریری بنانا بھی روز بروز نام±مکِن ہوتا جا رہا ہے۔ اِس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے۔ انسان آسانی کے ساتھ جدید تصانیف سے فائدہ ا±ٹھا سکتا ہے اور پھِر ایک انسان نہیں بلکہ سینکڑوں انسان، سالہا سال ا±ن علمی سر چشموں سے اپنی فکری پیاس بجھا سکتے ہیں۔ گویا کتابوں کو سنبھالنا، ا±ن کی حفاظت کرنا اور ا± ن کو کتب خانوں میں محفوظ کرنا ایک بہترین صدقہِ جاریہ ہے۔ اِس لیے لوگ اپنے ذاتی کتب خانوں کو قومی سطح کے کتب خانوں میں ب±طور عطیہ منتقل کرتے ہیں تا کہ ا± ن کی موت کے بعد یہ کتابیں اپنا نور بِکھیرتی اور فِکرو خیال کی راہوں کو اجالتی رہیں۔ جب ہم کسی لائبریری سے کوئی کتاب لاتے ہیں تو ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ کتاب خراب نہ ہو اور محفوظ رہے کیونکہ وہ ذاتی ملکیت نہیں ۔لیکن ایسا نہیں کہ ذاتی کتب کی حفاظت بھی نہ کی جائے بلکہ ا±ن کو بھی سنبھا ل کر رکھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو ا±س کتاب کی مستقبل میں ضرورت پڑے یا کسی دوست احباب کو ضرورت ہو۔ لائبریری سے لائی گئی کتاب ایک امانت کی مانند ہے۔ یہ ایک قومی دولت ہے اور اِس پر ہر ایک کا حق ہے۔ بعض لوگ لائبریری سے نادر کتابیں لے کر ا±ن کی قیمت جمع کرا دیتے ہیں، یہ قومی نوعیت کا ایک سنگین ج±رم ہے۔ روپے تو مل جاتے ہیں مگر وہ نایاب کتابیں نہیں ملتیں۔ نتیجہ معلوم کہ ایک دنیا ا± ن کے فیض سے محروم ہو جاتی ہے، جس طرح کتب خانوں کا قیام ایک کارِ ثواب ہے اِس طرح وہاں سے کتابوں کو ا±ڑانا ایک ج±رم ہے۔
کتابیں بہترین رفیق ہیں۔ انسان انسان کو فریب دیتا ہے مگر کتاب کبھی دھوکا نہیں دیتی۔ کتاب کا ایک ایک ورق واضح، کھلا اور سچا ہوتا ہے۔ کتاب زندگی کی تلخیوں میں حلاوت پیدا کرتی ہے اِس سے وقت بہلتا، احساس سنورتا، فکر نکھرتا، اور ذوق شگفتہ ہوتا ہے۔ مگر یہ ا±نہیں م±ہذب کتابوں سے ہی حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ وہ کتابیں جو فحاشی کو فروغ دیں ، جِن میں ہزلیات زیرِ فہرست ہیں۔ کتاب ایک بہترین ناصح، ایک شفیق دوست اور ایک معتبر رہنما ہے۔ کتاب علم کے نور اور قلم کی عظمت کا ایک خوبصورت اظہار ہے اور جو لوگ علم اور قلم کے اِس سرچشمے سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتے۔ الغرض کتب خانے ایک قومی ضرورت ہیں، تنہائی کی نعمت ہیں، ادب اور فن کے خزانے ہیں، علم کا ایک سمندر ہیں کہ موجیں مار رہا ہوتا ہے اور ہر ایک کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت اور اپنے ظرف کے مطابق اپنی پیاس بجھاتا چلا جائے۔
ملتان میں بھی چند ایک تاریخی کتب خانے ہیں۔ راقم الحروف نے گزشتہ دنوں گورنر پنجاب سے ملاقات میں ملتان میں تاریخی کتب خانوں کی حالت زار کے بارے تفصیلی بات کی جس پر گورنر نے فوری ایکشن لینے کی یقین دہانی کرائی۔حال ہی میں پبلک لائبریری ملتان کی تزئین و آرائش کی گئی۔ گھنٹہ گھر کی دوسری منزل پر پبلک لائبریری عوام کےلیے کھول دی گئی۔ لائبریری میں پچاس ہزار کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے جن میں تاریخ اسلام، اردو ادب، انگلش لٹریچر ، فارسی، عربی، مزاح، تاریخ ملتان اور مختلف موضوعات پر کثیر کتابیں موجود ہیں جبکہ انگلش اور اردو اخبارات سے بھی استفادہ کیا جا رہا ہے۔ پبلک لائبریری لانگے خان باغ کی تزئین و آرئش کےلیے سیکرٹری آرکائیو اینڈ لائبریریز لاہور احمد رضا سرور آج کل ملتان میں ہی ہیں اور کتب خانے کی بہتری کے لیے اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔