میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نگراں وزیراعظم کے قول وفعل میں تضاد

نگراں وزیراعظم کے قول وفعل میں تضاد

جرات ڈیسک
اتوار, ۱۰ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے گزشتہ روز اپنے کنونشن میں ا لیکشن کمیشن سے 90 دن میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے نگراں حکومت سے کہاہے کہ سیاسی بنیادوں پر گرفتار کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے، گرفتار عام شہریوں کو سول عدالتوں کی تحویل میں دیا جائے،سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن نے کہاہے کہ کوئی نگراں سیٹ اپ90 دن سے زائد عرصہ قائم نہیں رہ سکتا، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومتیں غیرآئینی ہیں، اس بات کا یقینی بنانا ضروری ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دنوں کی آئینی مدت میں انتخابات کرائے جائیں، ادارے آئین کے تحت انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کر رہے ہیں، دوسری جانب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے عام انتخابات اگلے سال جنوری یا فروری سے پہلے ہی ہو جائیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے عام انتخابات، عوام کی نگران حکومت سے توقعات، معاشی اہداف اور بھارت سے تعلقات سمیت دیگر معاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔ایک سوال کے جواب میں کہ ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ انتخابات جنوری یا فروری میں ہوجائیں گے؟‘ نگران وزیراعظم نے جواب دیاکہ ہوسکتا ہے اس سے پہلے بھی ہوجائیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’چونکہ اس کا تعین الیکشن کمیشن کو کرنا ہے تو ہم بھی اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی وہ تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے جڑی ہوئی جتنی بھی تیاری ہے وہ مکمل کرکے، ان کو سپورٹ کرکے اپنا آئینی فریضہ ادا کریں اور گھر کو جائیں۔الیکشن کمیشن نے یکم ستمبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کی حتمی تاریخ 30 نومبر 2023 مقرر کی گئی ہے اور اسی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا جائے گا۔ اس سے قبل نئی حلقہ بندیوں کے حتمی اعلان کے لیے رواں سال 14 دسمبر کی تاریخ دی گئی تھی، تاہم الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد حلقہ بندیوں کے دورانیے کو مزید کم کردیا ہے، جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہوئیں کہ عام انتخابات اگلے برس جنوری یا فروری میں ہوسکتے ہیں۔اس سوال پر کہ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے انتخابات جلد کروانے کا فیصلہ دے دیا جائے؟ نگران وزیراعظم انوار الحق نے کہا کہ ’ضرور،سپریم کورٹ ایک اپیکس باڈی ہے اور اس کے سامنے جتنے بھی قانونی سوال ہوتے ہیں، جب ان کا فیصلہ ہوجائے تو پھر وہ آپ پر لازم ہوتا ہے اور ہماری حکومت پر بھی ہے، کسی بھی حکومت پر ہے تو ہم کوشش کریں گے کہ اس پر عملدرآّمد اس کی روح کے مطابق کریں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عام انتخابات کے سلسلے میں ’لیول پلیئنگ فیلڈ سب کو ملے گا۔ پاکستان کے جتنے بھی ووٹرز ہیں، یہ ان کا اختیار ہے کہ وہ جس سیاسی رہنما کو چننا چاہتے ہیں، جس سیاسی جماعت کو چننا چاہتے ہیں، اس کے حق میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں، کسی ادارے کی مداخلت نہیں ہوگی، سب کو جلسوں کی اجازت ہوگی، تحریر و تقریر کی اجازت ہوگی، لیکن تمام سیاسی پارٹیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کے حوالے سے نگراں وزیراعظم کے دعوے کے برعکس اس وقت خود نگراں حکومت کے دور میں ملک کی ایک سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگادیاگیاہے اور اسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، عدالتوں سے اس پارٹی کے رہنماؤں کو ریلیف ملنے کے باوجود ڈپٹی کمشنر جیسے چھوٹے درجے کے سرکاری ملازم اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے انھیں واپس زنداں میں پہنچانے کیلئے سرگرم ہیں اور نگراں وزیر اعظم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہ کر اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی مرضی ومنشا کے مطابق ہورہاہے۔نگران وزیراعظم نے اپنی حکومت کو درپیش معاشی اور دیگر مسائل سے متعلق بھی بات کی اور بتایا کہ جو بھی وقت انہیں میسر ہے، اس کے اندر ’اہم اہداف‘ کو حاصل کرنے کے لیے اپنے تیئں ایمانداری سے کوشش ضرور کریں گے۔اپنی حکومت کے سب سے بڑے مسئلے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے معیشت کا نام لیا۔نگران حکومت کے اختیارات سے تجاوز سے متعلق سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہاں پر دو چیلنجز ہیں، ایک طرف آپ سے پبلک ڈیمانڈ توقعات کی صورت میں ہے کہ چونکہ آپ پر سیاسی دباؤ نہیں ہے تو آپ مشکل فیصلے لیں اور ڈیلیور کریں اور دوسری طرف ایک طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ آپ کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں لہذا آپ الیکشن کروائیں اور گھر جائیں۔انھوں نے کہا کہ اس صورت حالہمیں ایک بیلنس قائم کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، ہم یہاں نہ طویل مدت کے لیے آئے ہیں، نہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے، کسی کے ذہن میں اس طرح کا خیال ہے تو وہ غلط فہمی دور ہوجائے تو بہتر ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’لیکن لانگ ٹرم نہ ہونے کے باوجود قوانین کے ذریعے جو ہمیں اختیارات دیے گئے ہیں، خصوصاً معاشی میدان میں، وہ دیے ہی اسی لیے گئے ہیں کہ وہ مشکل فیصلے جو مستقبل میں شاید کوئی سیاسی جماعت اگر نہ لے سکے، تو یہ ونڈو جو ہمیں بائی چانس مل گئی ہے، اسے پُر کریں۔
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ 3 سے 4 ماہ میں انتخابات منعقد ہوجائیں گے۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے تاجر برادری کو اعتماد میں لے رہے ہیں۔ اس دعوے کے باوجود پاکستان کی سیاسی فضا میں ابہام بڑھتا جارہا ہے۔ اگر نگراں حکومت آئین کے تحت 3 ماہ میں نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے غیر جانبدار حیثیت میں قائم کی گئی ہے تو ان کا یہ دعویٰ کوئی وزن نہیں رکھتا کہ وہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اقدام کریں گے۔ اس لیے کہ نگراں حکومت کا فرض ہے کہ وہ انتخابات کرائے اور نئی منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کردے۔ نگراں حکومت کے تقرر کی روایت بھی اسی لیے ڈالی گئی تھی کہ انتخابات اور دھاندلی سے پاک ہوں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان لاکھ اختلافات موجود ہوں لیکن اس کے باوجود اس امرپر اتفاق رائے موجود ہے کہ امور مملکت منتخب پارلیمان کے ذریعے چلائے جانے چاہئیں۔ شہباز حکومت کے دور میں تو آئین کو کھلونا بنادیا گیا تھا۔ شہباز دور حکومت میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے اب کسی کو بھی یقین نہیں ہے کہ انتخابات کا انعقاد اپنی آئینی مدت میں ہوجائے گا۔ عوام کی صورت حال یہ ہے کہ معاشی تباہی کی وجہ سے لوگ انتخابات کا انتظار بھی نہیں کررہے ہیں۔ بجلی کے بلوں کی وجہ سے ملک بھر میں چلنے والی احتجاجی مہم کی لہر صرف ایک علامت ہے، سوال یہ ہے کہ سابقہ حکومت جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برسراقتدار آئی تھی اس نے دعویٰ کیا تھا اور بجا دعویٰ کیا تھا کہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہے لیکن ”رجیم چینج“ کے بعد آنے والی حکومت کے دور میں تو تباہی کی رفتار تیز ہوگئی۔ ہر شعبہ بدعنوانی کی گندگی سے لتھڑا ہوا ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت کی کوئی شے نہیں ہے جس کی قیمت میں ناقابل برداشت اضافہ نہ ہورہا ہو، اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ مہنگائی کی رفتار میں رکاوٹ آجائے گی۔اس نازک صورت حال اور
عوامی غم وغصے کو دیکھتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو خود میدان میں اترنا پڑا اور اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے کراچی اور لاہور کے تاجروں سے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ان ملاقاتوں میں کی گئی گفتگو کی جو تفصیلات شائع کی گئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکری قیادت نے یہ ذمے داری بھی اپنے ذمے لے لی ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کریں گے۔ جس کی بنیاد پر حکومتوں کے ہرکارے ایک بار پھر اس مشن پر لگ گئے ہیں کہ فکر نہ کرو ملک میں جلد ہی خوشحالی آجائے گی۔لیکن ملک کی معیشت میں بہتری کے حوالے سے نگراں حکومت کی جانب سے جو دعوے کیے گئے ہیں حقائق اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور قطر پاکستان میں اتنی سرمایہ کاری کریں گے کہ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہسعودی عرب متحدہ عرب امارات اور قطرپاکستان میں سرمایہ کاری کب شروع کریں گے اور کن شعبوں میں کریں گے،کیا اس کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے کوئی روڈ میپ تیار کیاگیاہے یقینا اب تک ایسا نہیں کیا گیا جب اب تک متوقع غیر ملکی سرمایہ کاری کا کوئی روڈ میپ ہی تیار نہیں کیاگیا تو یہ سرمایہ کاری ہوا میں تو نہیں ہوگی اور نہ یہ ہوسکتاہے کہ یہ ممالک سرمایہ حکومت کے سپرد کرکے کہیں کہ جس شعبے میں دل چاہے وہاں اسے لگادو، اگر پاکستان میں اتنے مواقعے موجود تھے تو شہباز شریف جو خلیجی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کے دعویدار تھے اب تک یہ سرمایہ کاری کیوں نہیں کراسکے۔ خبروں میں بتایا گیاہے کہ آرمی چیف سے ملنے والے تاجر و صنعتکار بہت مطمئن ہوگئے ہیں لیکن ان ملاقاتوں کے باوجود حقیقی صورت حال یہ ہے کہ پورے ملک میں عام تاجر اور صنعتکار اپنی احتجاجی تحریک کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں،شہباز قیادت نے عوام کے غیض وغضب سے بچنے کیلئے اس موقع پر جلاوطن ہوجانے کو ہی غنیمت تصور کیاہے ہے، حکومت اور اس کے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ریاستی طاقت کے بل پر عوام کی آواز کو کچل دیں گے جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ملک کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ نہایت ذمے داری کے ساتھ سب کو مل کر اس بحرانی کیفیت سے نکلنا ہوگا ورنہ جس طرف ملک کے حالات لے جارہے ہیں یہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں