میں نے ڈھاکا جاگتے دیکھا!!
شیئر کریں
بے لگام / ستارچوہدری
ابن خلدون تاریخ کے بڑے دماغوں میں سے ایک دماغ تھا، اس نے ایک عجیب بات کہی ،اگر مجھے ظالم حکمرانوں اور غلاموں میں سے کسی ایک کو مٹانے کا اختیار ملے تو میں غلاموں کو مٹا دوں گا کیونکہ یہ غلام ہی ہیں جنہوں نے ظالم حکمران پیدا کیے ہیں ۔سوچ کی غلامی ملک و قوم کو تباہ کر دیتی ہے ۔۔۔ بنگالی طلبا نے ثابت کردیا، وہ جاگ رہے ہیں،انہوں نے ایک ظالم حکمران کا تخت الٹ دیا۔
بنگالی انقلاب کا پہلا سبق ،ثابت ہوگیا،ملک کی اصل طاقت عوام ہیں۔دوسرا سبق ، حسینہ واجد نے اپنے ایک رشتہ دار جرنیل کو دسمبر 2023 میں سی جے ایس بنایا پھر چند مہینوں میں اسے آرمی چیف بنا دیا لیکن مرضی کا آرمی چیف جنرل وقار الزمان ان کی حکومت کو بچانے میں ناکام رہا ، حکومتیں عوامی حمایت سے چلتی ہیں ،آرمی چیف کی حمایت سے نہیں چلتیں۔۔۔تیسراسبق ،جب عوام ساتھ نہ ہو تو ملک چلانا مشکل ہو جاتا ہے ۔چوتھا سبق ،ظالم حکمرانوں کا انجام بہتر نہیں ہوسکتا ،حسینہ واجد کو بھارت نے مختصر پناہ دی اور اب ان سے جان چھڑانا چاہتا ہے ، لندن نے سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے ، امریکہ نے ان کا ویزہ منسوخ کر دیا، ایک دن پہلے تک ملک کی طاقتور حسینہ آج بے بسی کی علامت بن چکی ہے ۔۔ آج سے 53 سال قبل جس شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان کے عوام نے 95فیصد اکثریت سے ووٹ دیے تھے اور جو بنگلادیش کا بانی تھا اس کے مجسمے کے ساتھ کتنا براسلوک کیا گیا، شیخ مجیب کو تو 1975میں فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ شیخ مجیب کے مجسمہ کے ساتھ یہ سلوک اس کی بیٹی کے جابرانہ و ظالمانہ اقتدار اور اس کی طرف سے ملک پر مسلط فسطائیت کی بنا پر کیا گیا۔ عوام نے بیٹی کے خلاف غصہ اس کے باپ کے مجسمے پر نکالا۔ یہ پانچواں سبق ہے ، اگر ماضی کے ہیرو کے مجسموں کی کہیں توہین کی گئی تو اس میں اس ہیرو کے خاندان والوں کے کرتوت ہی وجہ بنے ہوں گے ۔ اور یہ ہے کہ اگر کسی بڑے لیڈر کی اولاد ناہنجار نکلے تو وہ اپنی بے عزتی تو کرواتی ہے ساتھ اپنے بڑوں کی عزت بھی خاک میں ملا دیتی ہے ۔چھٹا سبق پڑھیں، مجیب کا مجسمہ گراناخاندانی و موروثی سیاست کی آمریت کے خلاف اظہارنفرت ہے ۔چھٹا سبق یہ ہے ، اپنی ہی عوام کے ساتھ دشمنوں سے بدتر سلوک کرنے والے آنکھیں کھولیں۔ ریاست کی مالک عوام ہیں اور اگر قائد کی بیٹی بھی نظریے سے ہٹے گی تو قائد کا پتلا قابل احترام نہیں رہتا۔ساتواں سبق،اپنے ہی عوام کو ملک دشمن اور غدار کہنا نفرت کا سبب بنتا ہے ،سیاست میں مخالفت ہوتی ہے ،تنقید ہوتی ہے ،اس کا یہ مطلب نہیں جو شخص آپ کی رائے ،آپ کے بیانیے ،آپ کے نظریے سے اختلاف کرے وہ ملک دشمن اورغدار ہوگیا۔حسینہ واجد مظاہرین کو” رضا کار” قرار دے رہی تھی،رضا کارکا لفظ1971 میں استعمال ہوا تھا، جو لوگ مغربی پاکستان کا ساتھ دے رہے تھے ،انہیں رضا کار(غدار) کہا جاتا تھا،حسینہ کے ان الفاظ نے ہی جلتی آگ پر تیل چھڑکا۔ظلم کی انتہا،جماعت اسلامی کے تمام رہنماؤں کو پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا،اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا ء کو کب سے جیل میں قید کررکھا،دھاندلی کرکے وزیراعظم بن جاتیں۔یہ حقیقت حسینہ واجدکے دور میں بنگلہ دیش نے ترقی کی،معاشی طور پر ملک بہت مضبوط ہوا۔۔۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول!!کفر کی حکومت چل سکتی ہے ،ظلم کی نہیں۔۔۔!!بنگلا دیش کے سیاسی اورمعاشی حالات پاکستان سے کئی گنا اچھے ہیں،لیکن اس کے باوجود وہاں کے صرف طلبانے حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔یہ عقل مندوں کیلئے ایک نشانی ہے ۔
پاکستان کے حکمران اور طاقتور حلقے بھی ذرا غورکرلیں،عوام کا میٹر کسی بھی وقت گھوم سکتا ہے ۔بنگلہ دیش سے زیادہ ظلم تو9مئی کے بعد اب تک ہورہا ہے ،جس طرح یہ اتحادی حکومت بنائی گئی،دنیا بھر میں چرچے ہورہے ہیں،باقی چھوڑیں،بجلی کے بل جانیں لے رہے ہیں۔ شیخ حسینہ کا ہیلی کاپٹر اُڑا تو مجھے یاد آیا یہ اس خطے میں تیسرا واقعہ ہے اس سے پہلے اشرف غنی بھاگے تھے اور پھر سری لنکن صدر بھاگے تھے ۔۔۔ انقلاب ہمارے اردگرد بار بار دستک دے رہا ہے ،فارم 47والی حکومت سوچ لے ۔ کہاوت ہے ،جب برا وقت ہے تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے ،بنگالی فوج تو بہت چالاک نکلی جب پتہ چلا طلبا کرپٹ حکمرانوں کے بعد ہماری طرف آئیں گے ساتھ ہی انہوں نے حسینہ واجد کا ساتھ چھوڑ دیا۔”میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا”کے بعد پیش خدمت ہے ”میں نے ڈھاکا جاگتے دیکھا”۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔