میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
14 اگست جشن آزادیٔ پاکستان

14 اگست جشن آزادیٔ پاکستان

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۰ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

اگست کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ عظیم ترین اور اہم ترین دن ہے جس میں ہمارا یہ وطن عزیز ملک پاکستان عدم سے وجود میں آیا ، اور مسلمانانِ ہند نے انگریزوں ، ہندوؤں اور سکھوں کے چنگل سے آزادی کا پروانہ حاصل کرکے ایک آزاد اور خود مختار مملکت اسلامی کی بنیاد رکھی ۔ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ عظیم دن مدتوں یاد رکھا جائے گا ۔
اِس دن پورا ملک ، کیا شہر کیا دیہات ، کیا مارکیٹیں کیا بازار ، کیا گلیاں کیا در و دیوار ٗ ہر چہار سو ’’ بقعہ نور‘‘ نظر آتے ۔ کم سن بچے اور بچیاں شادیانے بجاتے ہیں ، نغمے گاتے ہیں ، اپنی معصوم آواز میں گنگناتے ہیں۔ عورتیں گھروں میں خوشیاں مناتی ہیں ، رنگ برنگے کھانے تیار کرتی ہیں اور مختلف قسم کے ملبوسات میں ملبوس ہوتی ہیں ۔ نوجوان اپنی اُبھرتی جوانی میں مخمور وطن عزیز ملک پاکستان کی محبت میں سڑکوں ، محلوں اور پبلک مقامات پر شاداں و فرحان ٹہلتے اور چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں ، بڑے بوڑھے اور معمر ترین بزرگ حضرات قیام پاکستان سے متعلق اپنے چشم دید حالات واقعات اورمشاہدات و تاثرات سے رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔ بلا شبہ آزادیٔ پاکستان کا یہ عظیم ترین دن نونہالانِ وطن اور باشندگانِ پاکستان کے لئے کسی بھی نعمت و دولت سے کم نہیں اور اس کے بارے میںبجا طور پر کہاجاسکتا ہے کہ یہ دن پاکستان کے مسلمانوں کی معراج کا عظیم ترین دن ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امر نہایت ہی اہم اور ضروری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نئی نسل کو قیام پاکستان کے حوالہ سے اِس کی الم ناک داستانوں ، جگر خراش واقعات اور جاں گداز حالات کے پس منظر میں اس کے وہ اہداف و مقاصد بھی مکمل طرح بیان کریں کہ جن کی بنیاد پر ہمارے اکابرین نے آگ و خون کے دریا عبور کرکے حصولِ پاکستان کی نعمت یقینی بنایا اور ہمیں ایک الگ خطہ ، ایک علیحدہ ملک اور ایک جدا گانہ مملکت کا نہایت ہی گراں قدر تحفہ پیش فرمایا ، تاکہ کہیں وہ اس کی پیش منظر رونقوں ، سجاوٹوں ،آسائشوں ، آرائشوں اور زیبائیوں میں گم ہوکر اِس کے پس منظر کی لہو رنگ تاریخ ساز داستان کا انکار کرکے اس کے ڈھانچے سے اس کی رُوح کوہی عنقا نہ کردیں ۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی نو جوان نسل کو ہندوؤں ، سکھوں اور انگریزوں کی دسیوں مخالفتوں اور بیسیوں سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ، لاکھوں جانوں ، کروڑوں عصمتوں اور اربوں کی جائیداد کی قربانی دے کر بانیانِ پاکستان کے اِن تمام تر حالات و واقعات سے قطعاً نا آشنا رکھاہے ، جس کے نتیجہ میںوہ آج نہایت ہی معصومیت سے یہ سوال کرتے ہے کہ انڈیا کو کیوں توڑا گیا اورپاکستان کیوں بنایا گیا ، کیا اچھا ہوتا اگر ہم اکٹھے رہتے ، یا دوبارہ اکٹھے کردیئے جاتے؟ لہٰذا ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو قیام پاکستان کے اہداف و مقاصد اور اُس کی لہو رنگ الم ناک داستان سے خبر دار کریں۔
1680ء میں برصغیر میں انگریز نے اپنا ناپاک قدم رکھا اور 1857ء میں برصغیر سے مسلمانوں کی حکومت کا بالکلیہ خاتمہ کردیا،اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانا شروع کردیے ، لاکھوں مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا ، اُن کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں، اُن کو اپنا غلام بنالیا گیا ، نتیجتاً مسلمانوں کا کاروبار تباہ ہوگیا ، عیش و عشرت لُٹ گئی ، غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال دیئے، جلتی پر تیل کا کام دینے کے لئے انگریزوں نے ملک میں انگریزی تعلیم لازمی قرار دے دی ، اسکولوں سے عربی اور فارسی کو نکال دیا اور ساتھ ہی جمعہ کی نماز کے لئے چھٹی دینے سے انکار کردیا ، جواباً مسلمانوں نے بھی انگریز کی بود و باش ، رہن سہن اور اُن کی تعلیم و تربیت کا مکمل طور پر بائیکاٹ کردیا اور اس طرح مسلمانوں کو انگریز سرکار کی نوکری سے بھی اپنے ہاتھ دھونے پڑے ، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان تعلیم و تربیت ، معاشرت و معیشت اور سیاست و حکومت کے لحاظ سے مکمل طورپر رُو بہ زوال ہوگئے ۔
لیکن دوسری طرف مکار ہندوانگریز وںکی خاصہ برداری ا و ر اُن کی چاپ لوسی کرکے راجہ موہن رائے جیسے ہم درد اور مخلص رہنما ء کی بدولت انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگے ، اُن کی وضع قطع ، بود و باش ، ہیئت و کیفیت ، حرکات و سکنات غرضیکہ زندگی گزارنے کے تمام طور طریقے انگریز آقاؤں کے سانچوں میں ڈھالنے لگے ، تاآں کہ وہ انگریزوں کے نورِ نظر اور اُن کے اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئے ، اور اس کے صلہ میں انگریز آقاء نے اپنی تمام تر عنایتیں اور مہربانیاں ان پر نچھاور کردیں۔
اس کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلی حزب اختلاف اور ہندو مفاد پرست جماعت کی تشکیل کے لئے انگریز قانون دان ہیوم نے ’’آل انڈیا نیشنل کانگریس‘‘ کی بنیاد رکھ دی، جو بظاہر تو ’’ہندو مسلم‘‘ دونوں کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی تھی ، مگر اصل میں درِ پردہ وہ صرف ہندو مت کی نمائندہ جماعت تھی، جو خود کو انگریز کا بیٹا اور اُس کا نورِ نظر مانتی تھی اور انگریز کے بعد ہندوستان میں ہندو راج قائم کرکے مسلمانانِ ہند کو اپنے زیر تسلط رکھ کر اُنہیں اپنا غلام بنانا چاہتی تھی ۔
جنگ آزادی 1857ء کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ اس کے دس سال بعد 1867ء میں ہندوؤں نے ایک اور فساد کا بیج بودیا اور لسانی تحریک شروع کردی ، جس کا مقصد یہ تھا کہ ادو زبان کی جگہ ہندی زبان کو سرکاری و عدالتی زبان کے طور پر رائج کیا جائے اور عربی رسم الخط کی جگہ دیونا گری رسم الخط کو اپنایا جائے ۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کو سمجھانے کی کوشش کی اور اُن پر واضح کیا کہ اردو زبان انڈو اسلامک آرٹ کا ایک لازمی جزو بن گئی ہے ، کوئی لاکھ بار چاہے تو بھی جنوبی ایشیاء کے ثقافتی ورثہ سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کرسکتا ، مگر ان دلائل کا ہندوؤں پر کچھ بھی اثر نہ ہوا ، یہاں تک کہ علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے بھی اپنی تمام تر مصالحتی کوشش کیں ، لیکن وہ بھی بری طرح ناکام رہے ، یہاں تک کہ اردو اور ہندی کے درمیان اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں رُونما ہوا ۔
سرسید احمد خان اردو ہندی کے اس جھگڑے سے پہلے ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علم بردار تھے اور متحدہ قومیت کے حامی تھے ، لیکن اس جھگڑے کے باعث انہیں بھی اپنے سیاسی نظریات یکسر تبدیل کرنا پڑے ، اور وہ ہندو مسلم اتحاد کے مخالف ہوگئے اور ہندوستان میں متحدہ قومیت کے بجائے مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے عظیم پیامبر بن کر اُبھرے۔
علی گڑھ مکتبہ فکر کے قائدین نے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کواُس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، اُن کا استدلال تھا کہ ’’ دو قومی نظریہ‘‘ ہی کی بنیاد پر مسلمانِ ہند اپنے دائمی حلیفوں کی دائمی غلامی اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نظریہ کے حامی رہنماؤں نے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے نام سے مسلمانانِ ہند کے لئے ایک الگ نمائندہ سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا۔
1906ء سے لے کر 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز ’’دو قومی نظریہ‘‘ ہی رہا ہے ، اس دوران آل انڈیا کانگریس ، ہندو مہا سبھا ، دیگر ہندو تنظیموں اور ہندو رہنماؤں نے اپنی تمام تر کوششیں ، حربے ، اور چالیں کرکے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ وہ کسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو ’’دو قومی نظریہ‘‘ سے برگشتہ کرسکیں اور اس نظریہ کو غلط مفروضہ کے طور پر پیش کرسکیں ،لیکن وہ اپنی اس سعیٔ پیہم بری طرح ناکام رہے اور اُنہیں منہ کی کھانی پڑی ۔
1920ء میں ہندوؤں کے مشہور لیڈر سوامی ستیہ دیو نے کہا کہ : ’’قرآنِ مجید کی تعلیم اقوام عالم سے نابود کردی جائے اور اُس کی جگہ ’’ راشٹر دھرم‘‘ کی تعلیم مسلمانوں کو دی جائے ۔چنانچہ 1925ء کے ملک گیر ہندو مسلم فسادات کے بعد ہندو مسلم اتحاد کے لئے ستیہ دیو ہری پراجک نے جو شرائط پیش کیں وہ اس طرح سے تھیں:
1- قرآنِ مجید کو اسلامی کتاب نہ سمجھا جائے ۔
2- حضرت محمد ؐ کو اللہ تعالیٰ کا رسول نہ مانا جائے۔
3- عرب وغیرہ کا خیال دل سے نکال دیا جائے ۔
4- سعدی و رومی کی تصانیف کے بجائے ’’تلسی کبیر داس‘‘ کی تصانیف کو زیر مطالعہ رکھا جائے۔
5- اسلامی تہواروں پر تعطیلات کے بجائے ہندو تہوار اور تعطیلات منائی جائیں ۔
6- تمام عبادات عربی زبان کے بجائے ہندی زبان میں کی جائیں وغیرہ وغیرہ۔
1925ء میں ہندوؤں کی متعصب مذہبی تنظیم ’’ہندو سنگھٹن‘‘ کے پروفیسر ہردیال نے اخبارات میں یہ پیغام چھپوایا کہ : ’’ہندو اور مسلمان‘‘ ہندوستان میںصرف اِسی صورت میں آپس میں مل جل کر رہ سکتے ہیں کہ حکومت ہندو ؤںکی ہو اور مسلمان اُس کی رعایا ہوں ۔ ہندو سنگھٹن کو صرف دو کام کرنے ہیں :’’ ایک ہندو سوراجیہ (یعنی آزادی) اور دوسرا شدھی (یعنی مسلمانوں کو ہندو بنانا ) جب تک سارا ہندوستان مسلمانوں کے وجود سے پاک نہیں ہوگا ، ہم کبھی چین سے نہیں سوسکیں گے ۔‘‘
1927ء میںہندوؤں کے انتہائی معتبر رہنما ’’پنڈت بال گنگا دھر تلک‘‘ نے اپنے مرنے سے پہلے مہاتما گاندھی کو پیغام بھجوایا کہ : ’’ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا کہ جس طرح بھی ہوسکے ہندوستان کی سب جائیدادیں ہندوؤں کے قبضہ میں آجائیں ، پھر صرف حکومت حاصل کرنے کا ایک مسئلہ باقی رہ جائے گا ، جس کا حل بالکل آسان ہوگا۔ ‘‘
1929ء میں راشٹریا سیوک سنگھ کے سربراہ گوالکر نے کہا کہ : ’’تمام بدیشی (یعنی غیر ہندو) اقوام کو ہندو تہذیب اور ہندو زبان اختیار کرنی پڑے گی ، اُن کے ذہنوں میں ہندو نسل اور تمدن کی حمد و ثناء اور تعظیم و تکریم کے سوا کوئی اور خیال جنم نہیں لینا چایئے ! اُنہیں اپنی انفرادیت ختم کرکے ہندو نسل میں گم ہونا پڑے گا ۔‘‘
الغرض اس قسم کے حالات و واقعات سے تنگ آکر مسلمانانِ ہند نے اپنی تمام تر سوچیں اِس نقطہ پر مرکوز کرنا شروع کردیں کہ اگر مسلمانوں نے عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رہنا ہے اور اپنے دین و مذہب اور تہذیب و روایات کو بچانا ہے تو پھر اُنہیں برصغیر ( ہندوستان) میں ایک الگ خطہ ، ایک الگ ملک اور ایک الگ مملکت درکار ہوگی، جہاں رہ کر وہ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و روایت کے عین مطابق اپنی زندگی ہندو چیرہ دستیوں سے محفوظ و مامون گزار سکیں اور ہندوؤں کے ستم اور مظالم سے بچ کرسکھ کا سانس لے سکیں ۔
اس قسم کی سوچ کا سب سے پہلے اظہار 1928ء میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے کیا ، پھر 1930ء میںعلامہ ڈاکٹر اقبال اور مولانا محمد علی جوہر نے کیا ، پھر 1933ء میں چوہدری رحمت نے کیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ مسلمانانِ ہند کی اجتماعی سوچ بن گئی۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں