مال کے بدلے مال کا تجارتی اصول
شیئر کریں
وفاقی حکومت نے گزشتہ روز ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کے باعث بارٹر ٹریڈ یعنی مال کے بدلے مال تجارت کی اجازت دیتے ہوئے تاجروں کو افغانستان‘ ایران اور روس کے ساتھ مال کے بدلے مال کے اصول کے تجارت تجارت کرنے کی اجازت دینے کیلئے بارٹر ٹریڈ پالیسی کو حتمی شکل دیدی ہے‘ سرکاری حلقوں کے مطابق اس پالیسی پر فوری طورپر عمل درآمدشروع کئے جانے کا قوی امکان ہے‘ اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے وفاقی حکومت سمیت تمام محکموں نے اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہیں،وفاقی وزارت خزانہ کی طرف سے جاری نوٹیفیکیشن میں مال کے بدلے مال کیلئے درآمدات اور برآمدات کی فہرست بھی فراہم کردی گئی ہے’تاہم ابھی اس بات کافیصلہ نہیں کیاجاسکاہے کہ مال کے بدلے مال یعنی بارٹر ٹریڈ کے تحت پاکستان آنے اورملک سے باہر جانے والے سامان کی قیمت کا تعین ڈالر سے کیا جائے گایا متعلقہ ملک کی کرنسی کو قیمتوں کے تعین کاپیمانہ بنایاجائے گا،جبکہ یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس کا فیصلہ ہونے تک کسی طرح کی بارٹر تجارت نہیں ہوسکتی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بارٹر ٹریڈ پر پاکستان کا ہوم ورک تکمیل کے مراحل میں ہے اور ماہرین کراچی میں بارٹر سسٹم کوکسٹم کے جدید وی باک سسٹم میں ایڈجسٹ کر رہے ہیں، یہ ایک یقینی امر ہے کہ بارٹر تجارت سے ملک کو زرمبادلہ کی بچت ہو گی ملکی معیشت پر ڈالر کے دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی دوسری طرف اس سے دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے گا جس سے پاکستان میں بہت سی جان بلب فیکٹریوں، کارخانوں اور صنعتوں میں جان پڑ سکتی ہے، جہاں تک بارٹر سسٹم کا تعلق ہے یہ تجارت کے حوالے سے دنیا کا قدیم ترین سسٹم ہے جب باہم تجارت کیلئے کرنسی ایجاد بھی نہیں ہوئی تھی اس وقت یہی مال کے بدلے مال کا نظام خوش اسلوبی سے کام کر رہا تھا اور تمام علاقوں کی ضروریات پوری کر رہا تھا، تقسیم برصغیر سے قبل بھی پاکستان میں موجودہ علاقوں سے وسط ایشیائی ریاستوں تاجکستان‘ ترکمانستان‘ آذربائیجان‘ سمر قند و بخارا وغیرہ کے ساتھ افغانستان کے راستے تجارت ہوتی تھی اور مال کے بدلے مال ہی اس باہمی تجارت کی بنیاد تھی تاہم اب دنیا بہت بدل چکی ہے، ہرملک کی سرحدوں کا ازسرنو تعین ہونے اور تجارت کیلئے کرنسی کے استعمال سے ہر ملک کی کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ کا دارومدار امریکی ڈالر پر زیادہ ہو گیا ہے تاہم گزشتہ مہینے ایران اور پاکستان کے علاوہ ترکی اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے حوالے سے بارٹر سسٹم پرانحصار نے کچھ بین الاقوامی پابندیوں کا بھی علاج ممکن بنا دیا ہے اور اب اسے مزید وسعت دینے کیلئے پاکستان نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بارٹر سسٹم پر عمل درآمد کی راہ کھول لی ہے جس سے نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ ملکی اشیا بھی آسانی سے باہر جا سکیں گی۔ ہمارے خیال میں اس سلسلے میں اشیا کی مالیت کے تعین کیلئے امریکی ڈالر پر تکیہ کرنے کے بجائے متعلقہ ملک کی کرنسی کو ہی معیار بنایا جانا چاہئے جس طرح حالیہ دنوں میں روس کے ساتھ تیل کی درآمد کے حوالے سے چینی کرنسی میں ادائیگی ممکن بنا دی گئی ہے، اس لیے توجہ صرف تجارت کے فروغ پر ہونی چاہئے۔