تاریخ کا سبق
شیئر کریں
پاکستان کے سب سے پہلے فوجی حکمران صدر جنرل ایوب خان(مرحوم) کے ابتدائی دور میں جب سلطنت اومان سے صرف 68لاکھ روپے میں گوادر کا علاقہ خریدا گیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ یہاں ایک عظیم الشان گہرائی والی بندرگاہ تعمیر ہوگی اور چین اس بندرگاہ تک رسائی کے لیے 46ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرے گا۔
سی پیک بلاشبہ پاکستان کی 70سالہ تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی و اقتصادی منصوبہ ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی اسی طرح سے ہوتی ہے۔ ایڈہاک نہیں سو دوسو سالہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ 1843ء میں کراچی پر برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضہ کے بعد شہر کی سب سے بڑی شاہراہ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) تعمیر کی گئی تھی۔ 70سال کے دوران کتنی ہی حکومتیں گزر گئیں لیکن کراچی میں اتنی و سیع و عریض سڑک تعمیر نہ ہوسکی جس کی وجہ سے آج کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام ہے اور ہر شہری پریشان ہے۔ پاناما اسکینڈل کی لڑائی میں پھنسے سیاستدانوں اور حکومت کو ان سوا دوکروڑ شہریوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کا وزیر اعظم اپنی شوگر ملیں اور اندرون و بیرون ملک پراپرٹی کا کاروبار یا اسٹیل کے کارخانے نہیں چلاتا‘ وہ فل ٹائم وزیر اعظم ہوتا ہے اور وفاقی تھنک ٹینک کا سربراہ بھی جس کی میٹنگز باقاعدگی سے ہوتی ہیں۔ سہ ماہی اور ششماہی رپورٹس پبلک سے شیئر کی جاتی ہیں۔ بھارت کو دنیا میں صف اول کا ملک بنانے کے لیے ماہرین پر مشتمل یہ فوکس گروپ ان رپورٹس پر غورو فکر کرتے اور مشورہ دیتے ہیں۔ ہمارا غورو فکر صرف اپنی دولت جائیداد کو وسیع کرنے پرمرکوز ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی اعلیٰ دماغوں کی کمی نہیں ہے لیکن یہاں حکمرانوں کو تھنک ٹینکس بنانے کی فرصت کہاں ہے؟ انہیں 22 کروڑ پاکستانی عوام میں سے صرف 900افراد ہی درکار ہوتے ہیں جو اپنے اپنے حلقوں سے الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں اور قومی خزانہ کی وحشیانہ لوٹ مار میں شریک ہوجائیں۔ یہ لوگ ملک و قوم کو کیا ترقی دیں گے ان کی اپنی خواہشات کی زنبیل ہی نہیں بھرتی۔ دبئی میں قیام کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ شارجہ حکومت کی جانب سے پاکستانی برادری کے لیے عطا کردہ ہزاروں گز کا پلاٹ صرف اس لیے منسوخ ہوگیا کہ دس سال کے دوران بھی اس پر کسی پاکستانی حکمران نے تعمیرات میں دلچسپی نہیں لی ۔ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے دور میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان ایسوسی ایشن دبئی اور شارجہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کام کے لیے حکومت کی جانب سے 5کروڑ روپے فراہم کریں گے لیکن دیگر کئی وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور پاکستان ٹریڈ سینٹر کے لیے مختص پلاٹ منسوخ ہوگیا جبکہ اس کے نزدیک ہی انڈیا ہاؤس کی چار مینار والی پرشکوہ عمارت موجود ہے۔
صدر جنرل ایوب خان مرحوم نے سلطنت او مان سے گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا اور پاکستان کی بدولت کھرب پتی بننے والے حکمران شارجہ حکومت کا عطا کردہ پلاٹ بھی نہ بچا سکے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس میں ان کا اپنا نہیں‘ پاکستانی قوم کا فائدہ تھا۔ پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کرنے والے یہ حکمران اور اشرافیہ آج خود پوری دنیا میں بے وقعت ہورہے ہیں۔ حال ہی میں یورپ میں ہونے والی ’’جی۔20‘‘ کانفرنس دنیا کے بااثر ترین حکمرانوں کی میٹنگ تھی جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی تو شریک تھے لیکن پاکستان کو نہیں پوچھا گیا۔ آج کی دنیا میں معاشی و اقتصادی سطح دیکھ کر حکمرانوں اور ملکوں کو عزت دی جاتی ہے جس ملک کے حکمران ملزمان بن کر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹیز میں خاندانوں سمیت پیش ہورہے ہیں‘ ان کو عالمی سطح پر کیا مقام ملے گا؟ ایوب خان نے گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا کیونکہ انہیں ملک سے محبت اور دلچسپی تھی اور سیاستدانوں نے دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کو یر غمال بناکر آدھا ملک گنوا دیا تھا۔ 1970ء میں پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل تھے۔ انہوں نے جنرل یحییٰ سے دو گھنٹے کی گرما گرم بحث کے بعد اس بات پر عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی نہ کی جائے اور بنگالیوں کو نشانا نہ بنائیں۔ اسی طرح جنرل صاحبزادہ یعقوب خان نے بھی مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی سے انکار کرکے وطن سے محبت کا ثبوت دیا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے زیر اثر یحییٰ خان نے جنرل ٹکا خان کو روانہ کیا جنہوں نے فوجی آپریشن کیا اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس منحوس دن ڈھاکا میں تھے۔ انہوں نے ڈھاکا اس وقت چھوڑا جب اپنی آنکھوں سے سڑکوں پر ٹینک اور توپیں دیکھ لیں۔ شیخ مجیب الرحمان کا رہائشی علاقہ دھان منڈی اور ڈھاکا جل رہے تھے اور خوشی سے سرشار بھٹو کی زبان سے نکلا’’خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔‘‘ 25
مارچ 1971ء کے سیاہ دن انہوں نے جنرلوں کو موقع ہی نہیں دیا کہ وہ پاکستان بچانے کے لیے بنگالی لیڈرز کے ساتھ کیے گئے مفاہمتی معاہدے پر عمل کرتے‘ انہوں نے 15-14 دسمبر 1971کو پوری دنیا کی جانب سے سیز فائر کی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں سیز فائر کی قرار داد پھاڑ کر ہوٹل کے کمرے میں چلے گئے اور پھر پاک فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے تک اپنے کمرے کا دروازہ نہیں کھولا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد ذوالفقار علی بھٹو 21دسمبر 1971ء کو باقی ماندہ پاکستان کے پہلے سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان کی ٹوپی یحییٰ خان کو پہنا کر خود صدر پاکستان بھی بن گئے۔ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان بری اور فضائی افواج کے سربراہ تھے۔ انہیں تحویل میں لے کر سفیر بناکر بیرون ملک بھیج دیا گیا اور پورے ملک پر قابض ہوگئے۔ ریٹائرڈ جنرل ٹکا خان کو خصوصی درجہ دے کر اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کا آغاز کردیا ۔ سندھ کے ایک قدیم سیاسی خانوادے کے ایک سر گرم رکن نے کسی نجی محفل میں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سی ایم ایل اے اور صدر پاکستان بن کر پہلا فون اپنے سیاسی حریف حاکم علی زرداری کو کیا تھا اور وارننگ دی کہ وہ 24گھنٹوں میں کہیں بھی جاکر چھپ جائیں ورنہ وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے چنانچہ حاکم علی زرداری فوراً ہی پاکستان چھوڑ کر لندن چلے گئے تھے۔
آج حاکم علی زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے چیئرمین ہیں اورپارٹی کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں یہ مکافات عمل ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے تینوں کردار بھٹو‘ اندرا گاندھی اور شیخ مجیب تاریخ کے بے رحم پہیے تلے کچلے گئے ہیں۔تاریخ قوموں اور شخصیات کو سنبھلنے اور سدھرنے کا موقع بھی دیتی ہے۔ تو بہ اور دعا کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے‘ حکمرانی کا تاج سرپر سجانے والے اگر اپنے ملک اور عوام کا بھی خیال اور احساس کریں تو سنگاپور کے ’’لی کو ان یو‘‘ اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی طرح ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف 39اسلامی ملکوں کی اتحادی افواج کی کمان سنبھالتے ہیں اور جنرل ایوب خان کی طرح گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس کردار ادا کرنے پر لعنت ملامت اور جے آئی ٹی کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے۔
٭٭…٭٭