میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ترقیاتی منصوبوں کیلئے تاریخی رقم مختص، تنخواہوں ، پنشن میں اضافہ

ترقیاتی منصوبوں کیلئے تاریخی رقم مختص، تنخواہوں ، پنشن میں اضافہ

ویب ڈیسک
هفته, ۱۰ جون ۲۰۲۳

شیئر کریں

( 144کھرب 60 ارب کا بجٹ پیش) ترقیاتی منصوبوں کیلئے تاریخی رقم مختص، تنخواہوں ، پنشن میں اضافہ
ملکی دفاع کے لیے 1804 ارب مختص، گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ،مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار مقرر، ای او بی آئی کی پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز
بجٹ میں نئے ٹیکسز لگانے سے گریز ،ترقیاتی منصوبوں کیلئے 11 کھرب 50 ارب کی تاریخی رقم مختص، مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا، اسحاق ڈارکا قومی اسمبلی سے خطاب
اسلام آباد(بیورورپورٹ)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار قومی اسمبلی میں نئے مالی سال 24-2023 کے لیے 144 کھرب 60 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے تاریخی 1150 ارب روپے جبکہ ملکی دفاع کے لیے 1804 ارب روپے مختص اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ، گریڈ 17 اور اوپر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافہ ہوگا۔ پنشنرز کی پنشن میں ساڑھے 17 فیصد اضافہ، مزدور کی کم سے کم تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کردی گئی۔ ای او بی آئی کی پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ۔بجٹ میں نئے ٹیکسز لگانے سے گریز کیا گیا ہے ۔اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا بجٹ شروع ہوا۔ اسحاق ڈار نے بجٹ کی تجاویز پیش کرنے سے قبل بدترین معاشی اعداد وشمار کے اسباب پر روشنی ڈالی اور ساری ذمہ داری پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت پر ڈال دی۔’مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا‘۔اسحاق ڈار نے کہا کہ مخلوط حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا، حکومت نے آئی ایم ایف کی نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کرلیا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف حکومت کی اولین ترجیح ہے، حتی المقدر کوشش ہے کہ جلد سے جلد اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے، کوشش ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے زیادہ سے زیادہ اقدامات کیے جائیں۔’معاشی مشکل حالات کی ذمہ دار سابقہ حکومت ہے‘۔اسحاق ڈار نے کہا کہ آج ملک مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے، معاشی مشکل حالات کی ذمہ دارسابقہ حکومت ہے، پی ٹی آئی نے ایسے اقدامات کیے جو آئی ایم ایف کی شرائط کے صریحاً خلاف تھے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی 4 سالہ حکومت میں گردشی قرضوں میں 1319 ارب اضافہ ہوا، ، 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24 ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47 ویں نمبر پر آگیا۔’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کا دوسرا بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کی وجہ سے خسارہ 17.5 ارب ڈالر ہوگیا تھا، موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات سے خسارے میں تقریباً 77 فیصد کمی آئی ہے جو 23-2022 میں کم ہو کر 4 ارب ڈالررہ جائے گا۔ ’ترقی کا ہدف (جی ڈی پی) صرف 3.5 فیصد رکھا ہے‘ ۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ ہم نے آگلے مالی سال کے لیے ترقی کا ہدف (جی ڈی پی) صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جو کہ ایک Modest Target ہے، جلد ملک عام انتخابات کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مالی سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ درانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔شعبہ زراعت: زرعی قرضوں کی حد 18 سو ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے مقرر ،وفاقی وزیر نے بتایا کہ زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کردیا گیا ہے۔50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔معیاری بیج کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔چھوٹے اور درمیانی درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا اس مقصد کے لیے اگلے مالی سال میں مارک اپ سبسڈی کے لیے 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی: ’50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو پروفیشنل ٹریننگ دی جائے گی‘۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی درآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔آئی ٹی کو ایس ایم ای کا درجہ دیا جائے گا، آئی سی ٹی کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی ہے۔صنعتی اور برآمدی شعبہ جات: ’ایکسپورٹ کانسل آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے‘۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ایکسپورٹ کانسل آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، یہ کونسل ہر سہ ماہی میں کم سے کم ایک میٹنگ منعقد کرے گی اور برآمدات سے متعلق فیصلے کرے گی۔تمام Listed Companies پر کم سے کم ٹیکس 1.25 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کردیا گیا ہے۔ٹیکسٹائل کی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے Synthetic Filament Yarn پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔تعلیم: ’ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیلیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں‘ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے Current Expenditure میں 65 ارب روپے اور Development Expenditure کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔’یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں 35 ارب روپے کی ٹارگیٹڈ سبسڈی دی جائے گی‘ اسحاق ڈار نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں 35 ارب روپے کی ٹارگیٹڈ سبسڈی دی جائے گی۔مستحق افراد کے علاج اور امداد کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔استعمال شدہ کپڑے پر اس وقت 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس کو ختم کیا جارہا ہے۔’بیواؤں کے قرض حکومت ادا کرے گی‘وزیر خزانہ نے بتایا کہ2017 ، 2018 میں ہاؤسنگ بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیواؤں کیلیے بھی بجٹ میں اسکیم رکھی گئی ہے۔اس حوالے سے اسکیم متعارف کروا ئی جارہی ہے جس کے تحت بیواؤں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقایاجات حکومت ادا کرے گی۔ریسورنٹ میں کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی پر ٹیکس کی شرح کم کر کے پانچ فیصد مختص کی گئی ہے۔ریسٹورنٹ میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کی جارہی ہے۔تین ہزار غیر ملکی شہری پاکستان کے امیر گھرانوں میں کام کررہے ہیں، غیر ملکی گھریلو مددگاروں کو سالانہ 6 ہزار ڈالر تنخواہ دی جاتی ہے، گھریلو ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم پر سالانہ دولاکھ روپے کی ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔سرکاری ملازمین کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس میں اضافہ:وزیر خزانہ نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔آئندہ مالی سال میں گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس میں 35 فیصد کیا جا رہا ہے جبکہ گریڈ 17 اور اس سے اوپر ملازمین کے ایڈہاک ریلیف میں 30 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ملٹری الاؤنس میں 7 ہزار سے 14 ہزار روپے مقرر کیا جائے گا۔نظرثانی شدہ بجٹ کے اہم نکات:علاوہ ازیں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان میں مالی سال 23-2022 کے نظرثانی شدہ بجٹ کے اہم نکات پیش کیے:رواں مالی سال میں ایف بی آر کے محاصل 7200 ارب روپے کے الگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو 1618 ارب روپے ہونے کی توقع ہے۔کل اخراجات کا تخمینہ 11090 ارب روپے ہے۔پی ایس ڈی پی کی مد میں اخراجات 567 ارب روپے تک رہنے کا امکان ہے۔معاشی شرح نمو 3.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے۔افراط زر (مہنگائی) کی شرح اندازاً 21 فیصد تک ہوگی۔برآمدات ہدف 30 ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر ہے۔ملکی دفاع کے لیے 1804 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 714 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے۔پنشن کی مد میں 761 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 1074 ارب روپے کی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیر پروگرام(بی آئی ایس پی)، ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)، ریلویز اور دیگر محکموں کے لیے 1464 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔صحافیوں اور فنکاروں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجزا کیا جارہا ہے۔پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔بجٹ 24-2023 کے نمایاں خدوخال:ضروری اشیاء کی درآمد پر ڈیوٹی میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا،تجارتی سہولیات اور کاروباری آسانیاں،صنعت کاری اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی،زرعی شعبہ کے لئے مراعات،توانائی کی بچت کا فروغ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی حامل خدمات کا فروغ،مخصوص کاغذ اور آرٹ کارڈ اور قرآن کریم کی اشاعت کیلئے بورڈ پر کسٹمز ڈیوٹیز کا استثنی،ایک مزید اے پی آئی اور موجودہ ڈیوٹی رجیم میں تین ادویات کو شامل کرتے ہوئے فارما سیکٹر میں مراعات،سولر پینلز اور ملحقہ آلات کی تیاری پر مراعات، مشینری، آلات اور سولر پینلز، انورٹرز اور بیٹریز کی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے سامان کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کی حامل خدمات کے درآمد کنندگان کیلئے مراعات۔ آئی ٹی سے متعلقہ سازو سامان پر ڈیوٹی فری کی اجازت (اپنی برآمد کی ویلیو کے 1 فیصد کے مساوی)،10 پی سی ٹی کوڈز کے تحت آنے والے صنعتی سازوسامان کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹیز اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹیز میں کمی،ڈائپرز، سینٹری نیپکنز اور چپکنے والی ٹیپ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،کپیسٹرز کی تیاری کے لئے استعمال ہونے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت،ہیوی کمرشل وہیکلز کی نان لوکلائزڈ پر 10 فیصد کسٹم ڈیوٹی میں 5 فیصد کمی،ہیومڈلائزر فلوڈ/پاوڈر کے خام مال کی درآمد پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی میں استثنیٰ،سابقہ فاٹا ایریاز کیلئے مشینری اور آلات کی درآمد پر استثنیٰ میں جون 2024تک توسیع،اسنیکس اور خوراک کی تیاری کے لئے فلیور پاوڈرز کی درآمد پر جون 2024ء تک رعایت میں توسیع،آرگینک کمپوزٹ سولوینٹ اور تھنرز پر کسٹم ڈیوٹی میں استثنیٰ،پولسٹر یارن کی تیاری کیلئے پیٹ اسکریپ کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی میں کمی،مولڈز اینڈ ڈائیز کی تیاری کے لئے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،مائننگ مشینری کیلئے خام مال/سازوسامان پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،رائس مل مشینری کے خام مال/سازوسامان پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،مشین ٹولز کے لئے خام مال/سازوسامان پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،آٹو انڈسٹری ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی (اے آئی ڈی ای پی) 2021-26ء کے ساتھ کسٹم ایکٹ سے پانچویں شیڈول کے پیرا پانچ کو شامل کرنا،زرعی شعبہ میں ترقی کو فروغ دینے کے لئے بیجوں کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،کمرشل فش فارمز اور ہیچریز میں بریڈنگ کے لئے درآمد پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،ورلڈ فوڈ پروگرام کے تصدیق شدہ مینوفیکچررز کے استعمال کے لئے تیار سپلیمنٹری فوڈ (آر یو ایس ایف) کی تیاری کیلئے روزسٹڈ پینٹس پر کسٹمز ڈیوٹیز میں استثنیٰ،مقامی انڈسٹری کے تحفظ کے لئے کیلشم آف کاربائیڈز پر 3 فیصد کسٹم ڈیوٹیز میں اضافہ کر کے 11 فیصد کر دیا گیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں