پانی بحران‘وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر کراچی کونظرانداز کردیا
شیئر کریں
مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کا معاملہ شامل تھا لیکن وزیر اعظم نے زیر بحث آنے سے قبل اجلاس ملتوی کردیا
کے فورمنصوبہ عنقریب مکمل ہوجائے گالیکن پانی کا انتظام تاحال نہ ہوسکا،وفاق نے چاروں صوبے سے اسلام آباد،پنڈی کے لیے پانی مانگ لیا
الیاس احمد
پچھلے ہفتے وزیراعظم کی صدارت میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا۔ جس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ اجلاس میں دس سے زائد ایجنڈے تھے لیکن کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کا اہم ایجنڈا زیر بحث ہی نہیں آیا۔ یعنی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے شہر اور منی پاکستان کو پانی کی اضافی فراہمی کے معاملے کو قابل بحث ہی نہیں سمجھا گیا تو اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی۔ وزیراعظم نواز شریف اس دن لیہ میں جلسہ عام کرکے واپس آئے تھے اور تھکے ہوئے تھے، انہوں نے تین چار ایجنڈے پر بات کی اور پھر اجلاس ملتوی کر دیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ زور دیتے رہے کہ ایجنڈا مکمل کیا جائے اور کراچی کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے منصوبے پر غور کیا جائے لیکن وزیراعظم نے ایک نہ سنی جبکہ دیگر تین وزرائے اعلیٰ بھی خاموش رہے، یوں انتہائی اہم معاملہ زیر بحث ہی نہیں آسکا اور وزیراعلیٰ سندھ خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ کراچی میں اس وقت کے فور منصوبہ مکمل ہونے والا ہے۔ اور اس منصوبے کے لیے حکومت سندھ کو 1200 کیوسک پانی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت سندھ نے پہلے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) میں کیس پیش کیا کہ جب کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے تو پھر کراچی کو پورے ملک سے پانی کیوں نہیں فراہم کیا جاتا؟ اس پر حکومت سندھ کو جواب دیا گیا کہ حکومت سندھ یہ معاملہ وفاقی حکومت یا مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھائے کیونکہ ارسا کو یہ اختیار ہی نہیں ہے۔ جب حکومت سندھ نے کیس وفاقی حکومت کے سامنے پیش کیا تو وفاقی حکومت نے اس پر غور کرنے کے بجائے ایک نیا ڈرامہ کر دیا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو بھی چاروں صوبے اپنے حصے سے پانی دیں اس پر حکومت سندھ نے سخت مخالفت کرتے ہوئے مو¿قف اختیار کیا کہ راولپنڈی تو پنجاب میں شامل ہے اس کو تو پنجاب کے حصے سے پانی مل رہا ہے اور اسلام آباد کو تو پہلے ہی منگلا ڈیم کے اپنے چھوٹے موٹے ذخائر سے پانی ملتا ہے تو پھر چاروں صوبے کیوں اپنے حصے سے اسلام آباد کو پانی فراہم کریں؟ اس پر وفاقی حکومت نے بھی چپ سادھ لی اور کوشش کی کہ کسی بھی طرح کراچی کو بھی پانی نہ دیا جاسکے۔ حکومت سندھ نے کئی بار مشترکہ مفادات کونسل کو خطوط لکھے مگر اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اب بڑی کوششوں کے بعد مشکل سے کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی کا ایجنڈا رکھا گیاتھا اور حکومت سندھ اس کے لیے اپنا کیس بھی بھرپورطریقے سے تیار کرکے لے گئی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنے ساتھ محکمہ آبپاشی کے ماہرین بھی لے کر گئے تھے تاکہ وہ کراچی کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے مو¿ثر آواز اٹھا سکیں لیکن افسوس صد افسوس وزیر اعظم نے یہ ایجنڈا زیر بحث بھی لانے نہ دیا تو پھر کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی پر کیسے فیصلہ ہوتا؟ یوں اہم ترین منصوبے کی تکمیل ایک خواب بن گئی ہے۔ دوسری جانب حب ڈیم سے بھی پانی کی فراہمی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور کراچی کی آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں کراچی کے لیے کیا متبادل انتظام کیا جائے گا؟ کیونکہ کے فور منصوبہ ایک سال کے اندر مکمل ہو جائے گا۔ ایک طرف دریائے سندھ سے کوٹری ڈاﺅن اسٹریم کے لیے پانی کم ہوتا جا رہا ہے جس کے باعث کراچی کو پینے کے پانی کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اور حب ڈیم بھی بارشیں نہ ہونے کے باعث کراچی کو ہر سال کم پانی فراہم کر رہا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی کو آنے والے وقت میں پانی کی شدید کمی لاحق ہونے کی رپورٹ تیار کرنا شروع کر دی ہے تاکہ وفاقی حکومت کو بتایا جاسکے کہ آئندہ دس پندرہ برسوں میں کراچی کے لیے پانی کی کتنی کمی ہوگی؟ اور کراچی کی کتنی آبادی بڑھے گی؟ اس صورتحال میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت سندھ نے اپنے تئیں بہت زیادہ زور دیا ہے اور بھر پور انداز میں کراچی کے پینے کے پانی کا کیس پیش کیا ہے لیکن وفاقی حکومت میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ سرکاری افسران کو کراچی کی اس پریشانی کا ذرہ برابر احساس نہیں ہے اور ان کو صرف اسلام آباد کا احساس ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ کراچی کے بجائے اسلام آباد کا کیس پیش کیا جاتا ہے اور ہر مرتبہ حکومت سندھ یہی تاویل پیش کرتی ہے کہ کراچی عروس البلاد اور منی پاکستان ہے جہاں چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان اور فاٹا کے لوگ رہتے ہیں ان کو پینے کے پانی کی اشد ضرورت ہے۔ باقی تین صوبے کراچی میں بسنے والے انکے اپنے لوگوں کا احساس کریں اور انہیں کم ازکم صرف پینے کا پانی ہی فراہم کردیں۔ لیکن باقی صوبے بھی وفاقی حکومت کے رویہ کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں اور یوں کراچی کو اضافی پانی ملنے کا مطالبہ ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔
اس مرتبہ تو حکومت سندھ کو زیادہ توقع تھی کہ وہ کراچی کے پینے کا پانی مسئلہ حل کرادے گی اور وزیراعظم سے درخواست کرے گی کہ جب کے فور منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو اس کا افتتاح وزیراعظم سے کرا دیں گے اور اس موقع پر نئے منصوبے کے لیے بھی وزیراعظم سے سنگ بنیاد رکھوائیں گے، اس طرح کراچی کے باسیوں کے لیے خوشخبری ملتی لیکن حکومت سندھ کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے اور اہم ترین ایشو کو قابل بحث بھی نہیں سمجھا گیا اور معاملہ فی الحال ملتوی کر دیا گیا۔ اب خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کے فور منصوبہ تو جلد یابدیر مکمل ہو جائے گا لیکن اس منصوبے کے لیے پانی کی فراہمی مشکل بن جائے گی اور پھر آنے والے برسوں میں کراچی میں پینے کے پانی کا بحران بھی بڑھ جائے گا۔ مگر ٹینکر مافیا کی چاندی ہو جائے گی جو سرکاری سرپرستی میں کھل کر پانی فروخت کر رہی ہے جو غریب کی پہنچ سے دور ہے۔