میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عید پر آئین کی سربلندی کا عہد کریں

عید پر آئین کی سربلندی کا عہد کریں

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۰ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

ماہ صیام اپنی برکتوں رحمتوں،بخششوں اور عنایتوں کے ساتھ رخصت ہوگیا اور آج پاکستان،آزاد اور مقبوضہ کشمیر اور خطے کے دیگر ممالک کے مسلمان روزے رکھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنی بخشش کی سعی کرنے کی مہلت،ہمت اور طاقت ملنے پر رب کریم کے سامنے سجدہ ریز ہوکر نماز دوگانہ ادا کررہے ہیں، کیا غریب کیا امیر سب ہی اپنے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر رمضان المبارک کے دوران کی ہوئی عبادات کی قبولیت اور سیدھی راہ پر چلتے رہنے کی توفیق بخشنے کی دعائیں کررہے ہیں۔اللہ ہم سب کی دعائیں قبول کرے اور ہمیں پاکستان میں ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی توفیق ادا کرے۔(آمین)
اس دفعہ عیدالفطر کا یہ تہوار ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب اقتصادی مشکلات کا شکار ہمارا ملک انتشار اور افراتفری کا شکار ہے، عام انتخابات میں ملک میں سیاسی استحکام پیداہونے کی دل خوش کن امیدیں الیکشن کمیشن اور مقتدر حلقوں کے مبینہ گٹھ جوڑ کے سبب دم توڑ چکی ہیں،چور دروازے سے اقتدار میں لائے گئے ارباب اختیار کے خود اپنے درمیان دوریاں بڑھتی نظر آرہی ہیں،اور کوئی بھی ایک پیچ پر نظر نہیں آرہا ہے،اور یہاں تک قیاس آرائیاں ہیں کہ خود وزیراعظم اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں ا ور برملا اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ میرے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین مفادات کا ٹکراؤاس حد تک بڑھ چکا ہے کہ واپسی کے دروازے بند ہوتے نظرآہے ہیں۔ملک کی اعلیٰ قیادت جسے عوام کیلئے قابل تقلید ہونا چاہئے تھا مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے ہر حربہ استعمال کررہی ہیں۔ اسلام نے دشمن کے ساتھ بھی حسن سلوک کا درس دیا ہے لیکن ہمارے ملک میں عوام کی رہنمائی کے دعویدار اب ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے اور سیاست میں سکون پیدا کرنے کیلئے مخالف کے ساتھ کسی رورعایت کی تجویز بھی سننے کو تیار نہیں ہیں۔پاکستان کی سیاست اور معاشرت نے ایسے زہریلے اور بدترین رویئے ماضی میں کبھی نہیں دیکھے۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی اختلافات آئین، قانون اور معاشرتی اقدار کے اندر رہ کر ہوتے ہیں،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے اختلاف کرتی ہے اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اختلاف نہیں کرتی بلکہ ایسا ایک دوسرے کی غلط پالیسی کی نشاندہی کے لیے کیاجاتاہے تاکہ جہاں غلطی ہے، اسے درست کرلیا جائے۔جب سیاسی اختلافات منتخب جمہوری اداروں کی حدود سے نکل کر ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور وہاں سے سڑکوں اور بازاروں میں آجائیں،اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان جب مقتدر حلقوں کی مبینہ دھمکیوں اور دباؤ کے خلاف اپنے چیف جسٹس سے پناہ مانگنے پر مجبور ہوجائیں اور جب اس دباؤ اور دھمکیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر ججوں کو موت کی دھمکیوں کے خطوط ملنا شروع ہوجائیں تو پھر کسی اصلاح کی امید کم ہی رہ جاتی ہے۔ یہ صورتحال جمہوری نظام کی بقا و استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کی سا لمیت کے لیے بھی خطرناک ہے اور اسے کسی طور بھی حب الوطنی نہیں کہا جاسکتا ہے۔سیاسیات کے اساتذہ ہوں، طالب علم ہوں، شاعر و ادیب ہوں یا سیاستدان ہوں، سب متفق ہیں کہ سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے، اسی سے مسائل کا حل نکلتا ہے۔ آمریت اسی لیے ناکام ہوتی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ جمہوری نظام اسی لیے قائم و دائم ہے کہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن اب ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ پاکستان میں اختلاف رائے کے معنی دشمنی کے لیے جارہے ہیں۔ اس کا مشاہدہ پاکستان کی معاشرت اور سیاست میں بخوبی کیا جاسکتا ہے اختلاف رائے کیا ہوتا ہے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اسے سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،آج جو کچھ ہورہاہے، اس کے ذمے دار ناخواندہ شہری اور دیہاتی عوام نہیں ہیں بلکہ خود کو تعلیم یافتہ، مہذب کہنے والے سیاستدان، سیاسی جماعتوں کے فنانسرز،ہینڈلرز اور سرکاری بابوہیں کیونکہ گزشتہ 75برس سے یہی پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ کہلانے والے لوگ ریاست پاکستان کے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں۔ پاکستان پر اگر غیرملکی اور ملکی قرضے ہیں، تو ان ہی کی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں، عوام بیچارے تو دن رات کماتے اور سرکار کو ٹیکس دیتے ہیں۔ملک میں پارلیمنٹ بطور ایک سپریم ادارہ ہے جو اپنا وجود رکھتا ہے، جس کے قواعد و ضوابط بھی درج ہیں، سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کے بجائے انھیں عدالتوں میں لے جانے پر مجبور کرنا پارلیمنٹ کو نظر انداز کرنے اور پھر عدالت کے احکامات کے من پسند معنی نکال کر اس کی بجاآوری کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرنا آئین کو ہی پامال کرنے کے مترادف ہے اور یہ سب کچھ سیاسی قیادت کرہی ہے جو خود کو پارلیمانی جمہوریت کی محافظ قرار دیتی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت اور عوام کے منتخب نمایندے جو کچھ کررہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔جو پارلیمان ریاست اور عوام کے مفادات، ملکی سلامتی اور ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں، وہاں ہمارے پارلیمنٹیرنز کیا گل کھلا رہے ہیں، وہ سب کچھ ٹی وی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے اور اخبارات میں شائع ہورہا ہے۔سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں، یہ ونگز سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، حتی کے ملک کے اہم اداروں اور شخصیات کے حوالے سے شرانگیز پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور سیاسی قیادت اس کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آرہی ہے۔ ملک کے باشعور لوگ ان غلط پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں توان کو بھی گالیوں اور بے عزتی کے ساتھ ساتھ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں، اہل علم، اساتذہ، ادباء و شعرا کو ان خطرناک، نفرت انگیز اورمائنڈلیس سیاسی رویوں کی فکرکرنی چاہیے، ان رویوں کی وجہ سے پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہورہی ہے، اب اہل علم کو خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اصلاح کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر اس وقت تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو ریاست کے اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کو ہے۔سیاسی بحث مباحثے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور ہر گفتگوکا اختتام لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ پر ہوتا ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔ بظاہر پڑھے لکھے،مہذب نظر آنے والے حضرات جب سیاست، معاشرت یا فقہی معاملات پر بات کرتے ہیں تو ان کے ذہنی افلاس پر رونا آتاہے۔ یہ ذہنی حالت ملک ومعاشرے کی وحدت اور سا لمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر جانے جا رہے ہیں۔اس تشویش ناک صورتحال میں ملک کی سیاسی قیادت اور ریاستی مشینری چلانے والے بابوؤں کو استحقاقی اور مراعاتی کلچر سے باہر آنا ہوگا۔جس ملک کی قیادت شہریوں کو بنیادی انسانی حققوق کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے فرسودہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے اقدامات اٹھائے، ملک کو معاشرے کے کو تعلیم یافتہ انتہاپسندوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے روشن خیال افراد کی ضرورت ہے، انھیں ایسا نصاب پڑھانے کی ضرورت ہے، جسے پڑھ کر ان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔
آج عیدالفطر کی نماز دوگانہ ادا کرتے ہوئے ہم سب کوخاص طورپر ہمارے سیاستدانوں کو اپنے اس روئیے پر غور کرنا چاہئے اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک سے گالم گلوچ اور بہتان تراشی کے کلچر کو ختم کرنے اورملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ہر قیمت پرآئین کی سربلندی کے عزم کااظہار کرنا چاہئے، اس سلسلے میں علمائے کرام اہم کردار ادا کرسکتے ہیں انھیں عید کی نماز سے پہلے اپنے بیانات میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور عوام کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں