میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی!

سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی!

جرات ڈیسک
پیر, ۱۰ مارچ ۲۰۲۵

شیئر کریں

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کاروباری برادری ملک کا اثاثہ ہے، معیشت کا پہیہ یہیں سے چلے گا، زراعت، صنعتی ترقی اور تجارت کا فروغ حکومت کا ہدف ہے، جہاں جس کی بھی غلطی ہو گی اسے جوابدہ بنایا جائے گا۔

وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز ملک کی معروف کاروباری شخصیات کے وفد سے ملاقا ت کے دوران کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کاروباری حالات کو بہتر بنانے کی کوششوں اور سازگار ماحول کے فروغ کیلئے حکومت بھرپور تعاون کرے گی تاکہ ملک کے مایہ ناز صنعتکار ملک میں خود بھی سرمایہ کاری کریں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی ملک میں سرمایہ کاری کے سازگار ماحول کے بارے میں بھی آگاہ کریں اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے اضافہ میں مدد کریں، اگر ملکی سرمایہ کار سرمایہ لگائیں گے تو بیرون ملک سے بھی سرمایہ کاری ہو گی۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سرمایہ کاری میں اضافہ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے ذریعہ ہی ہوسکتاہے ،اور یہ اضافہ کاروباری برادری کو تحفظ کااحساس دلاکر اور ان کی حوصلہ افزائی کرکے ہی کیا جاسکتاہے ، پاکستان کے پاس ایسے متعدد وسائل موجود ہیں جن پر سرمایہ کاری کی جائے تو ملک خوشحال ہو سکتا ہے۔ ہم ملک میں موجود قدرت کے انمول خزانوں کو صحیح منصوبہ بندی اور افرادی قوت کے درست اور بر وقت استعمال کے ذریعے پاکستان کو تیز ترین معاشی و سماجی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرسکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے جو معاشی اشاریئے بتائے جارہے ہیں ان پر نظر ڈالی جائے توبجا طورپر یہ کہاجاسکتاہے کہ گزشتہ دو تین سال کی نسبت اس وقت ہم معاشی طور پرنسبتاً بہتر پوزیشن میں ہیں، اگر واقعتا حکومت کے فراہم کردہ اشاریئے درست ہیں تو اس سے ظاہرہوتاہے کہ ہمیں اس صورت حال کو مستحکم کرنے کیلئے دولت کے پیدواری امکانات پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔

وزیراعظم سے زیادہ کون جانتاہوگا کہ اس وقت ملک کا بڑا مسئلہ معاشی نظام کو درست خطوط پر استوار کرنے اور ٹھوس معاشی پالیسیاں بنانے کا ہے اور مضبوط اور جامع ترقی کے حصول کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں تیزی ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل کی بڑی وجہ عدم استحکام بھی ہے معاشی ترقی کے اقدامات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے سیاسی استحکام اور تمام اداروں کے درمیا ن مکالمے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ قرض کے پروگراموں سے ادائیگیوں کا توازن کسی قدر قائم ہوا مگر اب بھی معاشی استحکام کی منزل خاصی دور ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتاہے کہ حکومت کو توانائی کے شعبے کے بڑھتے ہوئے قرضوں کو کم کرنے کے لیے کمرشل بینکوں کے ساتھ 12 کھرب 50 ارب روپے (4 ارب 47 کروڑ ڈالر) کے قرضے پر بات چیت کر نا پڑ رہی ہے۔

حکومت کے مطابق اس قرض کی ادائیگی 5 سے 7 سال کی مدت میں کی جائے گی، اطلاعات کے مطابق اس قرض کی شرائط کم وبیش طے کی جاچکی ہیں اور اب ٹرم شیٹ پر دستخط ہونا باقی ہیں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاہے کہ شرح سود فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ ہوگا اور ملک کے بڑے بینک اس عمل میں شریک ہوں گے۔

اس قرض سے اگلے 4 سے 6 سال میں تمام قرضوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی، جو بینکوں کی بیلنس شیٹ پر موجود ہیں۔ظفر مسعود نے کہا کہ 12 کھرب 50 ارب کے قرضوں میں سے آدھے سے زیادہ پہلے ہی بینکوں کے کھاتوں میں موجود ہیں، اور سیلف لیکوئڈنگ سہولتوں کے ذریعے ری اسٹرکچرنگ سے گزر رہے ہیں۔۔زیادہ تر پاور کمپنیوں کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر یا مالک حکومت کو مالی مشکلات کی وجہ سے قرضوں کا مسئلہ حل کرنے میں ایک چیلنج کا سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف کی سفارش کے مطابق توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کیا، لیکن اب بھی گردشی قرض کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔جس کی وجہ سے حکومت کو بینکوں سے تاریخ کے سب سے بڑے قرض کے حصول کی کوششیں کرنا پڑرہی ہیں۔

معاشیات کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی یہ جانتاہے کہ معاشی استحکام کے لیے قومی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور دولت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ہمارا قرض خواہی کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، یہ معاشی استحکام کی منزل سے دوری کا اشارہ ہے اور قرض داروں کی ادائیگیوں اور نئے قرضوں کی سخت شرائط کے معاشی اور سماجی اثرات اپنی جگہ ہیں۔وزیراعظم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ملک پرواجب الادا قرضوں میں دن بدن ہوشربا اضافہ ہوتا جارہاہے جس کا اندازہ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ سے لگایاجاسکتاہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، جنوری 2025 تک مرکزی حکومت کے قرضے ریکارڈ 72 ہزار 123 ارب روپے ہوگئے تھے۔جبکہ وفاقی حکومت کے قرضوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے،

اسٹیٹ بینک نے جنوری 2025 تک کے وفاقی حکومت کے قرضوں کا جو ڈیٹا جاری کیا ہے اس کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ جولائی 2024 سے جنوری 2025 کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں 3 ہزار 209 ارب روپے جب کہ جنوری کے ایک مہینے میں مرکزی حکومت کے قرضوں میں 476 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔دستاویز کے مطابق فروری 2024 سے لے کر کر جنوری 2025 کے ایک سال میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں7 ہزار 283 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اسٹیٹ بینک کے مطابق جنوری 2025 تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 72 ہزار 123 رب روپے رہا جس میں مقامی قرضہ 50 ہزار 283 ارب روپے اور بیرونی قرضے کا حصہ 21 ہزار 880 ارب روپے تھا۔دستاویز کے مطابق دسمبر 2024 تک وفاقی حکومت کے قرضے 71 ہزار 647 ارب اور جون 2024 تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 68 ارب 914 ارب روپے تھا جب کہ جنوری 2024 تک وفاقی حکومت کے قرضے64 ہزار 840 ارب روپے تھے۔

ان حالات میں قومی معاملات کی اصلاح کے لیے جامع اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے ملکی معیشت کو مستحکم کرنا انتہائی ضروری ہے۔پاکستان میں ٹیکس اور سروس فراہمی کا ڈھانچہ گزشتہ چند برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایف بی آر کا رجعت پسند ٹیکس کے طریقوں پر انحصارکی وجہ سے بنیادی طور پر بالواسطہ ٹیکس نے معاشی عدم مساوات کو بڑھا دیا اور کاروبار کی ترقی کو روک دیا ہے۔ یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتیں ادائیگی کی اہلیت کے اصول کے ساتھ منصفانہ ٹیکس نظام کو اپنانے میں ناکام رہی ہیں۔ ٹیکس ریونیو کے اہداف ودہولڈنگ ٹیکس اور بڑھے ہوئے نرخوں کے ذریعے پورے کیے جاتے ہیں جو موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ ڈالتے اور تعمیل کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اس سے کاروبار کرنے کی لاگت اور افراط زر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دولت کی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ساختی خامیاں، بنیادی ڈھانچے اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی کمی نے ٹیکس کے مستقل فرق میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بدعنوانی اور نااہلی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مالیاتی اہداف حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ٹیکس پالیسی میں مساوات اور شفافیت پاکستان کے ریونیو شارٹ فال کے مسئلے کو حل کرنے کی بنیاد ہے۔ نااہلیوں کو روکنے اور معیشت کو تقویت دینے کے لیے انتظامی اصلاحات ضروری ہوچکی ہیں۔

اس گمبھیر صورت حال میں یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومت ٹیکس اتھارٹی میں اصلاحات کے لیے کام کر رہی ہے، مگر اس کی رفتار انتہائی سست ہے۔قانونی سازی کے ذریعے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور کرپشن کے نئے راستے کھولنے کے بجائے ٹیکس کے طریقہ کار کو آسان بنانے، شرحوں کو کم کرنے اور غیر رسمی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت غیر رسمی معیشت اقتصادی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ڈیجیٹائزیشن، بہتر ٹیکس انتظامیہ اور باضابطہ مراعات کی ضرورت ہے۔ مالیاتی بدانتظامی سے نمٹنا اور ٹیکسوں کے پروگریسو میکانزم کے ساتھ صوبوں کو بااختیار بنانا پائیدار معاشی بحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے بغیر پاکستان کو اپنے قرضوں اور معاشی جمود کے چکر کو برقرار رکھنے کا خطرہ ہے۔ فی زمانہ معاشی استحکام صنعتی فروغ کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے حکومت کو چاہئے کہ صنعتی شعبے کی ترقی کو اہم قومی مفاد سمجھ کر آگے بڑھنے کی پالیسی اپنانے پر توجہ دے۔

شہباز شریف نے ملک میں سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت، صنعتی ترقی اور تجارت کا فروغ حکومت کا ہدف ہے، لیکن وزیر اعظم کے ظاہر کردہ اس عزم کے برعکس فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے کاشتکار کو بوائی کے وقت اچھے بیج اور کھاد کی مناسب قیمت پر فراہمی کا سرکاری سطح پر کوئی انتظام نہیں ہے کھاد اور بیج کے ڈیلر کاشتکار کی ضرورت سے ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے بوائی کا سیزن قریب آتے ہیں کھاد اوربیج غائب کردیتے ہیں اور منہ مانگی قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں اور قیمتوں پر کنٹرول کے ذمہ دار سرکاری اہلکار مبینہ طورپر اپنا حصہ لے کر چین کی بانسری بجاتے رہتے ہیں،اسی طرح صنعتوں کو ان کی ضرورت کے مطابق نہ تو بجلی میسر ہوتی ہے اور نہ ہی گیس اور پانی مہنگی بجلی اور گیس کی وجہ سے ان کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ان کی تیار کردہ اشیا کا کوئی خریدار نہیں ملتاان حقائق کی موجودگی میں کوئی کس طرح وزیراعظم کے اس وعدے یا عزم پر اعتبار کرسکتاہے کہ حکومت تجارت اور صنعتکاربرادری کو سازگار ماحول فراہم کرنے کیلئے کام کررہی ہے، کاغذات میں عوام کو بتایا جاتا ہے کہ میکرو اقتصادی اشاریے بتدریج بہتر ہو رہے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ نامساعد حالات کے باوجودملک کی ترقی، خوشحالی، پیداوار اور روزگار کے مواقع بڑھانے میں کاروباری برادری کا کردار لائق تحسین ہے، مخلص اور دیانتدار کاروباری برادری ہمارا قیمتی اثاثہ ہے، کاروباری اور صنعت کار برادری نے مشکل وقت میں ملکی صنعتی و معاشی ترقی کے لیے اپنا سرمایہ ملک میں لگایا ہے۔انہی کی کاوشوں کی بدولت ملکی معیشت کا پہیہ چلا، لوگوں کو روزگار ملا،لیکن کاروباری اور صنعت کار برادری کی اس اہمیت کے باوجود حکومت بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے اور ٹیکسوں کے نفاذ کے فیصلے کرنے سے پہلے کبھی تاجر اور صنعتکار برادری کو اعتماد میں لینے کا تکلف نہیں کرتی حالانکہ ان کی مشاورت اور مفید آراسے ملکی معیشت کی بہتری اور تمام شعبوں میں اصلاحات کا سفر تیز کیاجاسکتاہے، وزیراعظم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ سرمایہ کاری کا سفر مقامی سرمایہ کاروں سے شروع ہوتا ہے۔مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر ہی ملک میں روزگارکے مواقع میں اضافہ کیاجاسکتاہے اورپیداوار اور برآمدات میں اضافے کو یقینی بنایاجاسکتا ہے، اس مقصد کے حصول کیلئے کاروباری برادری اور صنعتکاروں کے مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔

شہباز شریف کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اگر ملکی سرمایہ کار سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرکے بیرون ملک اثاثے خریدنے یا غیر ملکی بینکوں میں جمع کرانے کے بجائے یہی سرمایہ ملک میں واپس لاکر اپنا یہ سرمایہ ملک میں لگائیں گے تو بیرون ملک سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔وزیراعظم کو اس بنیادی نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے بھانجے بھتیجوں کو اپنی بیرون ملک جمع کردہ دولت پاکستان منتقل کرنے کی ہدایت کرنی چاہئے تاکہ ملکی سرمایہ کاروں اور تاجر برادری کوبھی ملک کے اندر سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب مل سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں