سیاست میں مفاہمت کیسے ہوگی؟
شیئر کریں
انتخابات ہو گئے اور ان کے نتائج کے مطابق وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بھی بن گئیں، لیکن جس اطمینان، سکون اور یقینی صورت حال کیلئے الیکشن کا ڈول ڈالا گیا تھا،وہ اطمینان، وہ تیقن ابھی تک حاصل نہیں ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر ایک عجیب سا شور ہے، ایک عجیب سی بے کیفی ہے، بے یقینی ہے۔ ہر کوئی ’دھاندلی دھاندلی‘ کا شور مچا رہا ہے‘ وہ بھی جنہوں نے پارلیمنٹ کی سیٹیں حاصل کی ہیں، اور وہ بھی جو اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ معاملات کس قدر گمبھیر ہیں اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں ہے۔یہ بات خوش آئند ہے،وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کی جانب سے آصف زرداری سمیت بلاول زرداری اورمفاہمت کی سیاست پر زور دے رہے ہیں۔ ان کے بقول تمام سیاسی قوتوں کو سیاسی اور معاشی ایجنڈے پر اتفاق کرکے آگے بڑھنا چاہیے، ہر سیاسی جماعت خود کو مفاہمت کی حامی اور دوسری جماعتوں کو مخالف کہتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ سب کا رویہ غیرمفاہمانہ ہے۔مفاہمتی سوچ ہماری قومی سیاست کی اہم ترجیح ہونی چاہیے تھی کیونکہ جو مسائل ہمیں درپیش ہیں، ان کا واحد علاج ہی مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔لیکن مفاہمتی سیاست سے مراد رسمی اور روایتی مفاہمت نہیں جو محض اقتدار کی بندر بانٹ تک محدود ہو بلکہ ہمیں اس ملک کو ایک حقیقی مفاہمت درکار ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کو سیاسی حکمت عملی میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کا مقصد مفاہمت سے زیادہ اقتدار کی تقسیم ہے۔مفاہمت کے پیچھے اصل طاقت ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنا اور قومی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرکے آگے بڑھنا ہے۔لیکن لگتا ہے کہ ہم مفاہمت کی سیاست سے بہت دور ہیں یا یہ ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ ہم سیاست میں محاذ آرائی، ٹکراؤ اور سیاسی دشمنی میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور ان حالات کو پیدا کرنے کی ذمے داری کسی ایک فریق پر نہیں بلکہ سب پر ہی عائد ہوتی ہے۔ایک طبقہ یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ مفاہمت کی سیاست میں سب سے بڑی رکاوٹ پی ٹی آئی اور عمران خان کا طرز عمل ہے لہذا انھیں ہی مفاہمت میں پہل کرنا ہوگی جب کہ دوسرا گروپ کہتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مسلسل جو زیادتیاں کی جارہی ہیں یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لہجے میں اپنے سیاسی یا غیر سیاسی مخالفین کے خلاف تلخی اور غصہ کا پہلو نمایاں ہے اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے یا جو کچھ اب بھی کیا جارہا ہے اس کا ردعمل فطری ہے۔ اس غصے یا تلخی کو کم کرنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کا سیاسی غصہ تو سمجھ میں آتا ہے اسی طرح جو لب ولہجہ محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل، مولانا فضل الرحمن، ایمل ولی خان اور جماعت اسلامی میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بھی ان ہی زیادتیوں کا نتیجہ ہے،یہ صورت حال دیکھ کرلگتا ہے کہ مفاہمت شاید جلد نہ ہوسکے بلکہ موجودہ صورت حال مزاحمت کا اشارہ ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سازگار حالات پیدا کیے بغیر مفاہمت کی سیاست آگے بڑھ سکے گی۔مفاہمت کی سیاست کیلئے بڑی وسیع القلبی اور بڑے پن کی ضرورت ہوتی ہے مفاہمت کی سیاست کے لیے جو فہم وفراست اور بردباری درکار ہے، وہ کہاں سے لائی جائے گی۔کیونکہ مفاہمت کو پیدا کرنے کے لیے دو طرفہ تعاون درکار ہوتا ہے۔جو سیاسی فریقین میں نظر نہیں آرہا ہے۔ ایک دوسرے کو مائنس کرنے کی خواہش مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مفاہمت کا راستہ نکالنے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرنا ہوں گی ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہوگا اور چھینا ہو ا حق واپس کرنا ہوگا،کسی کی دکان یامکان پر قبضہ کرنے کے بعد اس قبضے کو ختم کرکے اسے واپس کئے بغیر مفاہمت کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ایسا کیے بغیر کم ازکم اب مسئلہ کا حل ممکن نہیں ہوگا۔
فی الوقت صورت حال اس کے برعکس نظر آرہی ہے ایک طرف مفاہمت کی سیاست یا معیشت پر زور دیا جارہاہے اوردوسری طرف الیکشن کمیشن کی طرف سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی مخصوص نشستیں نہ دینے کے فیصلے نے سیاست کو گرما رکھاہے۔ سیاسی فریقین کو سمجھنا ہوگا کہ مفاہمت کو اگر آگے بڑھاماہے تو روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر اقدام کرنا ہوں گے، پاکستان کیلئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوگی ورنہ عوام دن بدن برباد ہوتی معیشت کی وجہ سے مختلف طرح کی مشکلات میں گھرتے چلے جائیں گے۔ لوگ پر امید تھے کہ ملک میں انتخابات کے نتیجے میں جلد ہی سیاسی استحکام جنم لے گا۔ اس کے بعد عوام کے منتخب نمائندے حکومت سازی کے عمل سے گزر کر سب سے پہلے اشیائے خورو نوش سمیت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لاکر لوگوں کومایوسی کے دلدل سے نکالنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی روش کو ترک کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر باہمی مصالحت سازی کی بنیادرکھیں گے تاکہ عوام کے روز مرہ مسائل کے فوری حل کی راہ تلاش کی جاسکے۔ لیکن بدقسمتی سے عام انتخابات کے بعد راتوں رات مبینہ طور انتخابی نتائج میں گڑ بڑ کے ذریعہ پورے الیکشن کو ہی متنازع بنا دیا گیا، یہ کھیل کس کے اشارے پر کھیلا گیا یہ بھی جلد کھل جائے گا لیکن اس مسئلے کو نمٹائے بغیر اور حقدار کو حق دئے بغیر نہ تو پارلیمنٹ میں ہونے والے شور شرابے کو روکا جاسکے گا اور نہ ہی ملک میں استحکام پیدا ہونے کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔
پارلیمنٹ میں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے عوامی نمائندوں کے درمیان بدزبانی،شور شرابایہاں تک کہ ہاتھا پائی بھی کوئی نئی بات نہیں ہے، منتخب ارکان اسمبلی کی جانب سے ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کا یہ طریقہ نئی نسل کیلئے حیران کن ہوسکتا ہے۔ ورنہ پاکستان کی ساری پارلیمانی تاریخ اس طرح کی صورت حال سے بھری پڑی ہے۔یہی وجہ ہے کہ برسرِ اقتدارجماعت یا اتحاد کیلئے ماضی میں جمہوری اصول وقائدے کے مطابق اپنے اقتدار کی مدت کو پورا کرناانتہائی مشکل مرحلہ رہا ہے۔ یہ صورت حال تبدیل کرنے کے لیے تمام فریقوں کی جانب سے غیر معمولی فیصلے درکار ہوں گے۔اب سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی بداعتمادی بڑھ رہی ہے اس کا خاتمہ کرنا ہوگا وگرنہ یہ ماحول مزید نئی تلخیوں کو جنم دے گا۔ مزاحمت کی سیاست اپنی جگہ لیکن سیاسی تدبر کی بنیاد پر سیاسی راستہ نکالنا ہی اس ملک اور خود سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کیلئے کارگر ہوسکتاہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی قیادت جہاں بھی مذاکرات کا آپشن دیکھے تو اس کیلئے اپنے دروازے بند نہ کرے بلکہ مکالمہ کی طرف بڑھنا ہی سب کیلئے درست سیاسی حکمت عملی ہوگی۔پاکستان میں جو لوگ بھی سیاسی مسائل کو نظرانداز کرکے معاشی بہتری کے ایجنڈے کوبنیاد بنا کر بڑا اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں،انھیں سمجھنا چاہئے کہ مفاہمت کا عمل آگے بڑھائے بغیر ایساکیسے ممکن ہوسکے گا؟کیونکہ ایک ہی بنیادی تھیوری ہے کہ ہم داخلی سیاسی استحکام کی بنیاد پر ہی معاشی استحکام کی طرف بڑھ
سکتے ہیں۔مگر کچھ لوگ بضد ہیں کہ سیاسی مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے معاشی حل تلاش کیا جائے، وہ پہلے بھی غلطی پر تھے اور آج بھی وہ غلطی پر ہی ہیں۔کیونکہ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ایک طرف مفاہمت کا ایجنڈا ہواور دوسری طرف کسی کے خاتمہ کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے۔ کاش ہماری سیاسی و غیر سیاسی قیادت داخلی مسائل کا بہتر طور پر ادراک کرسکے اور سمجھ سکے کہ ہمیں داخلی، علاقائی اور عالمی محاذ پر جو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان کا علاج مفاہمت کی سیاست کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کو یہ ہنگامہ آرائی اور بے چینی کا خاتمہ کرنے کیلئے پلڈاٹ کی سفارش پر الیکشن ٹربیونلز کو ہر کیس کی بنیاد پر تنازعات حل کرنے کی اجازت دی جائے۔ الیکشن ٹربیونلز کو انتخابی اعتراضات پر فیصلہ کرنے کے لیے 180 دن کی قانونی ڈیڈ لائن دی گئی ہے لیکن بہت سی درخواستوں کا فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت لگنے کا خدشہ ہے۔پلڈاٹ کی جانب سے پنجاب میں 2018 کے عام انتخابات کے بعد بنائے گئے8 کے مقابلے میں صرف 2 الیکشن ٹربیونلز کی دستیابی پرظاہر کی گئی گہری تشویش بیجا نہیں ہے، پلڈاٹ کی رائے کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ تمام انتخابی درخواستوں کا 180 دن کی قانونی ڈیڈ لائن کے اندر فیصلہ کیا جا سکے۔ پلڈاٹ کی رپورٹ میں انتخابات کے شیڈول میں تاخیر، سیاسی سختیاں، نگراں حکومتوں اور لیول پلئینگ فیلڈکے فقدان پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ انتخابی نتائج پر معترض پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی ویب سائٹ پر جاری کردہ فارم 45 میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹرگوہر علی خان نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنی ویب سائٹ پر فارم 45 شائع کرنے کے بعد اب انتخابات میں دھاندلی کے ثبوت مزید واضح ہو گئے ہیں۔پارٹی کے پاس اب ان حلقوں میں دھاندلی کے شواہد موجود ہیں جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو راتوں رات نتائج بدل کر کے ساتھ شکست دی گئی، ای سی پی کے فارم 45 کا تمام امیدواروں کے پاس دستیاب اصل فارمز سے موازنہ کیا جائے،یہ ایک اچھی تجویز ہے فارم 45 خود الیکشن کمیشن نے جاری کئے ہیں اب اسے تسلیم کرنے سے گریز معنی خیز ہے، انتخابی نتائج کے تحت ملک بھر میں ووٹروں کی مجموعی شرح 40 فیصد رہی لیکن رات کے اندھیرے میں کی جانے والی مبینہ ہیر پھیر کا ثبوت یہ ہے کہ اس ہیر پھیر کی وجہ سے کچھ جگہوں پر ووٹ ٹرن آؤٹ 100 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا لیکن چیف الیکشن کمشنر یہ حقائق تسلیم کرنے سے گریز کررہے جو کہ معنی خیز ہے۔انتخابی دھاندلی ہر انتخابات کے بعد پاکستان میں زیر بحث رہی ہے۔کبھی،پاکستان قومی اتحاد، کبھی تحریک انصاف، کبھی جے یو آئی اور کبھی پیپلز پارٹی کو انتخابی نتائج پر اعتراض رہا۔مسلم لیگ ن پر الزام رہا کہ وہ دھاندلی سے فائدہ اٹھانے والی جماعت رہی ہے۔ اس سلسلے میں آئی جے آئی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ تمام جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود انتخابی شفافیت یقینی بنانے کیلئے پارلیمنٹ کا کردار قابل قدر نہیں رہا۔ اب مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اعظم نذیر تارڑ کا کہناہے ہمیں بھی انتخابی نتائج پر تحفظات ہیں۔انتخابی عمل کی غیر شفافیت اور الیکشن کمیشن کی کوتاہی ایک بار کا مسئلہ نہیں۔ ہر انتخاب کا متنازع ہونا ملک میں جمہوریت کے متعلق بد گمانی پیدا کر رہا ہے، اسی طرح پاک فوج اور دیگر اہم اداروں کو بسا اوقات الزامات کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے حالانکہ یہ بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل قانون اور آئین کے مطابق انجام دے۔حالیہ انتخابات پر رزلٹ ٹیمپرنگ، غیر منصفانہ طور پر ہارنے والوں کو کامیاب کرنے، جعلی نتائج کی وجہ سے ٹرن آؤٹ کی غلط بیانی،انتخابی نظام کا غیر فعال ہونا اور نتائج جمع کرنے کے نظام کی خامیوں جیسے داغ لگے ہیں۔اس صورت حال کے پیش نظر ضروری ہے کہ حکومت کیلئے اشد ضروری ہے کہ وہ ایک بار تفصیل کے ساتھ انتخابی نتائج اور انتخابی نظام کے آڈٹ کا انتظام کرے۔یہ آڈٹ پارلیمنٹ خود کرے تاکہ اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب عوام کے نمائندوں سے وصول کیا جا سکے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کیلئے سب سے پہلے نظام کو شفاف بنانے اور پارلیمنٹ کی حرمت بحال کی ضرورت ہے۔حکومت اور اپوزیشن کو انتخابی عمل کی ساکھ بحال کرنے کے لئے وقتی مفادات سے بالا تر ہو کر طرز عمل اختیار کرنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔