میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانپ بھی مرے گا‘لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی

سانپ بھی مرے گا‘لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی

منتظم
هفته, ۱۰ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

ہم ہوئے کافرتوکافرمسلمان ہوگیاکے مصداق نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے رضاربانی کوبطورچیئرمین سینیٹ قبول کرنے کااعلان کیاتوزرداری صاحب نے ٹکاسا جواب دے دیا۔اس حوالے سے اگرایک جانب حکومتی حلقے اوراس کے اتحادی حیران ہیں تودوسری جانب جیالے قطعی پریشان نہیں ہیں ۔ کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سابق صدرآصف زردار ی گوکہ یاروں کے یارضرورمشہورہیں پرکسی کی ذراسی بات پربھی اگرناراض ہوجائیں تومعاف بالکل نہیں کرتے ۔ہوسکتا ہے بطورچیئرمین سینیٹ رضاربانی نے کسی موقع پرکوئی ایساعمل کرڈالاہوجوان کی ناپسندیدگی کاباعث بن گیاہو۔ ویسے بھی آج کل زرداری صاحب کاجھکائو سلیم مانڈوی والاکے حق میں زیادہ ہے اوروہ انہی کوچیئرمین سینیٹ دیکھناچاہتے ۔لیکن حیر ت اس بات پرہے کہ نوازشریف جانے کیوں رضاربانی کوچیئرمین سینیٹ برقراررکھنے پرتیارہوگئے ۔کہیں اس کی وجہ خودان کی پارٹی میں ایسے قابل افرادکافقدان تونہیں ۔ہمارے خیال میں توایساقطعی نہیں ہے ن لیگ میں بھی راجہ ظفرالحق ‘مشاہدحسین سیدسمیت کئی ایسی شخصیات موجودہیں جنھیں چیئرمین سینیٹ بنایاجاسکتاہے ۔اس حوالے سے سنایہ جارہاہے کہ حکمران جماعت کوسینیٹ چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کے چنائوکے لیے مطلوبہ تعدادمیسرآچکی ہے اورانھوں نے ناموں پربھی مشاور ت مکمل کرلی ہے تادم تحریران ناموں کومیڈیاکے سامنے نہیں لایاجاسکاتھا۔دوسری جانب سیاسی کھیل کے بادشاہ زرداری صاحب بھی ابھی تک اپنے اس دعوے پرقائم ہیں کہ اس بار بھی چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی کاہی ہوگا۔ یہ آنے والاوقت بتائے گاکہ اس معاملے میں ن لیگ بازی لے جاتی ہے یاپھر ایک بار پھرتیرہی چلے گا۔

سینیٹ میں تیرچلے یانہ چلے فی الحال توتیرایم کیوایم پاکستان کے ڈاکٹرفاروق ستارکے دل پرضرورچل رہاہے ۔ کیوں کے ایک جانب تو سندھ سے سینیٹ کے انتخاب میں ان کی جماعت کے کئی اراکین صوبائی اسمبلی نے پیپلزپارٹی کوووٹ دے کرکامیاب کرادیاہے اوپرطرہ یہ کہ ہیرسوہونے بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیارکرکے دیگرخواتین کوبھی سینیٹ انتخاب کے دوران فروخت کیے گئے ووٹ سے حاصل شدہ رقم کوچھپانے کی راہ دکھادی ہے ۔رہی بات فاروق ستارکی تووہ پہلے ہی کئی مسائل سے دوچارہیں ایک جانب ان کی پارٹی کے سینئررہنما راہیں جداکرکے بہادرآباد میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں تو دوسری جانب کامران ٹیسوری کولے کران کامیڈیاٹرائل بھی جاری ہے ۔ اب خبریں سامنے آرہی ہیں کہ اپنے والد کی جماعت کا بکھراشیرازہ سمیٹنے کے لیے افضا الطاف بھی جلد پاکستان آنے والی ہیں۔ابھی تک یہ محض ایک خبرہی ہے جوجھوٹی بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن اگراس میں ذرابھی صداقت نکلی تویہ ایک نئی فکرہوگی جوڈاکٹرفاروق ستارکولاحق ہوگی۔

فکرتوخیرسے عمران خان کوبھی کھائے جارہی ہے کہ کہیں سینیٹ کاچیئرمین ن لیگ سے نہ بن جائے اوراس کا وہ برملااظہاربھی کرتے رہتے ہیں ۔لیکن کرکچھ نہیں سکتے کیوں کہ ان کی جماعت سے چیئرمین سینیٹ آناتوناممکن ہے اس لیے انھیں کسی بڑ ی جماعت مثلا پاکستان پیپلزپارٹی وغیرہ کی حمایت کرنا ہوگی ایسی صورت میں اگروہ ن لیگ کاراستہ روکنے کے لیے ایساکربھی لیتے ہیں تویقینان لیگ سینیٹ کی چیئرمین شپ سے ضرورمحروم رہ جائے گی ۔ لیکن پیپلزپارٹی کاچیئرمین ضروران کے سینے پرمونگ دلتا رہے گا۔ایسے میں لے دے کے عمران خان کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتاہے اوروہ ہے خاموشی سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کابائیکاٹ کردیں ۔لیکن ایساکرنے کی صورت میں انھیں خوداپنی ہی پارٹی سے تنقید کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔اس لیے بہترتویہی ہے کہ ناچاہتے ہوئے بھی چیئرمین سینیٹ کی نشست کے لیے کسی ایک جماعت کی حمایت کی جائے ۔اسی لیے انھوں نے کسی جماعت کی حمایت کرنے کی بجائے سیدھاوزیراعلی بلوچستان کی جھولی میں ہی اپنے منتخب سینیٹرزڈالدیئے ہیں۔ اب یہ عبدالقدوس بزنجوکی مرضی ہے کہ چاہے وہ ن لیگ کے ہوجائیں یاپھرپیپلزپارٹی کے ۔ویسے امید تویہی ہے کہ وزیراعلی بلوچستان اپنے نادیدہ محسن جسے ہردیدہ ور جانتاہے کے ہوجائیںگے ۔لہذااس طرح ایک جانب تو عمران خان کی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ن لیگ کاراستہ روکنے کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی اوران پربراہ راست پیپلزپارٹی کے امیدوارکی حمایت کاالزام بھی نہیں لگے گا۔مطلب سانپ بھی مرے گااورلاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔

لاٹھی پریادآیاخادم اعلی کے صوبے کی پولیس نے لاٹھی کے سہارے چلنے والے بصارت سے محروم افرادپربھی لاٹھیاں برسانے کی روایت برقراررکھی اورکیوں نہ رکھتی اسے اس کام میں دیگرصوبوں کی پولیس کے مقابلے میں مہارت اورتجربہ جوہے ۔ اب بھلاکوئی اعلی پولیس افسران سے پوچھے کہ بھیاوہ نابینا افرادکون ساپہاڑڈھانے چلے تھے اپنے حقو ق ہی تومانگ رہے تھے اگرانھیں تھوڑاوقت دے دیاجاتاتواس طرح جگ ہنسائی تونہ ہوتی ۔ ویسے بھی خادم اعلی کے صوبے کی پولیس کو کئی سنگین الزامات کاسامناہے ۔ سانحہ ماڈل ٹائون ہویاقصورمیں معصوم زینب کے قاتل کی گرفتاری کامطالبہ کرنے والوں کاہجوم، وہاں پنجاب پولیس نے مظاہرین پرگولیاں ہی برسائی ہیں ۔اس حوالے سے نابینا افرادکوشکراداکرناچاہیے کہ وہ ان کی گولیوںسے بچ گئے ۔ عام طورپراخبارات خبروں کی سرخیاں لگاتے ہیں ’’کہ ایک شخص اندھی گولی نشانہ بن گیا‘‘۔ پنجاب پولیس کی جانب سے بصارت سے محروم افرادپرگولیاں چلائے جانے پر خبرکی سرخی کچھ اس طرح بنتی کے’’ اندھاہی گولی کانشانہ بن گیا‘‘میڈیاشورمچاتا وزیراعلی نوٹس لیتے ‘شاید جے آئی ٹی بھی بنتی اورہوتاوہی جواب تک ہوتاآیاہے اس حوالے مزید کچھ لکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ۔

مزیدکچھ لکھنے کی ضرورت توخیر مریم بی بی کے لیے بھی نہیں ہے وہ بھی اباجی کی طرح عدلیہ مخالف بیان بازی جاری رکھے ہوئے بلکہ اگریوں کہاجائے کہ ان سے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔اب اگران پرتوہین عدالت لگتی ہے تولگے ۔ ان کاکام توکسی بھی جلسے میں جاکرہاتھ میں لکھی تقریرکوپڑھ ڈالناہے جس کی ابتداء خان صاحب پرتنقیدسے ہوتی اوراختتام عدلیہ کی توہین یاچلیں یوں کہہ لیں کہ عدلیہ کے پانچ ججوں کی توہین پرہوتاہے ۔ انھیں قطعی اس بات کی پرواہ نہیں کہ اگراعلی عدلیہ کے ججزنے توہین عدالت کے الزام میں انھیں طلب کرکے دوچارسال کے لیے کسی بھی عوام عہدے کیلیے نااہل کردیاتوپھروہ آئندہ الیکشن میں حصہ کیسے لیں گی جس کی تیاری میں وہ دن رات جتی ہوئی ہیں ۔ یہی نہیں اعلی ترین عدالت کی جانب سے ان پرعوامی اجتماعات میں خطاب پربھی پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں