میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دوسروں کی چیزیں استعمال کرنے میں انکی خوشی کا خیال رکھنا ضروری

دوسروں کی چیزیں استعمال کرنے میں انکی خوشی کا خیال رکھنا ضروری

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

مولانا ندیم الرشید
”کسی مسلمان شخص کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں“۔(شرح معانی الآثار۔ للطحاوی)
قابل صداحترام معزز قارئین!
آقا علیہ السلام کے ایک مبارک فرمان کو خطبہ جمعہ کے لئے منتخب کیا گیا ہے جن میں تعلیمات کا ایک دریاموجزن ہے۔ اس مقدس فرمان پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہم بہت سی پریشانیوں اور مسائل سے بچ سکتے ہیں۔دوسروں کی خوشی کے بغیر اور اجازت کے بغیر ان کی اشیا کو اپنے استعمال میں لانا دین اسلام میں ایک حساس عمل شمار کیا گیا ہے اور اس بارے میں تاکید سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اسلام اپنے ماننے والوں کے لئے جو سوسائٹی تشکیل دینا چاہتا ہے وہ ایک ایسی سوسائٹی ہے جس میں دوسروں کے لئے تکلیف ،پریشانی، بے چینی اور اضطراب نہ ہو بلکہ امن‘ سکون اور راحت ہو ۔اس مقصد کے لئے ہمارا دین ان تمام راستوں پر ”بیریئر“ لگا دیتا ہے جہاں سے معاشرتی مسائل اور خرابیوں کا سوسائٹی کے اندر داخل ہوکر پنپنے کا موقع پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا دوسروں کی خوشی کے بغیر یا ان کی خوش دلی سے دی ہوئی اجازت کے بغیر کسی کی چیز کو اپنے استعمال میں لانا بھی ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جس کی اصلاح کے لئے ہمارے مذہب میں تعلیمات موجود ہیں۔ چونکہ یہ عمل نہ صرف دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں معاملہ بعض اوقات گالم گلوچ‘ دنگے فساد اور قتل و غارت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مسلمان کے مال کی حرمت ایسی ہے جیسے اس کے خون کی حرمت۔ یہ بھی واضح رہے کہ حدیث شریف میں اگرچہ ”مسلمان“ کا لفظ ہے لیکن دوسری احادیث کی روشنی میں مسلمان حکومت کے غیر مسلم باشندے‘ جو امن کے معاہدے کے ساتھ رہتے ہوں‘ ان کے جان و مال کا بھی وہی احترام ہے جو مسلمانوں کے جان و مال کا ‘ لہٰذا اس لفظ سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ غیر مسلموں کی جان و مال قابل احترام نہیں ہیں۔
خطبہ حجة الوداع کے موقع پر بھی آقا علیہ السلام نے یہی تعلیم دی کہ کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا کوئی مال حلال نہیں، سوائے اس کے جو اس نے خوش دلی سے دیا ۔ (السنن الصغریٰ للبیہقی)
حضرت ابوحمید ساعدی ؓ آنحضرت ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں‘ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال ناحق لے ،یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا مال مسلمان پر حرام فرمایا ہے اور اس کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی دوست کی لاٹھی بھی اس کی دلی خوشی کے بغیر لے۔(کنزالاعمال )
ان احادیث سے واضح ہوگیا کہ دوسرے کی کوئی چیز لینے یا استعمال کرنے کے لئے اس کا خوشی سے راضی ہونا ضروری ہے۔ اس کی آزاد مرضی کے بغیر اس کا استعمال ممنوع ہے۔ لہٰذا اگر یہ بات معلوم ہوجائے کہ ایک آدمی نے اپنی ملکیت کی کوئی چیز استعمال کرنے کی اجازت کسی دباﺅ کے تحت یا شرماشرمی میں دی ہے اور وہ دل سے اس پر راضی نہیں ہے تو ایسی چیز کو اجازت نہیں سمجھا جائے گا اور اس چیز کا استعمال بھی ممنوع ہوجائے گا۔
حتی کہ مذاق میں بھی اگر کوئی شخص کوئی چیز لے لیتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں دوست ایک دوسرے کی کوئی چیز مذاق میں چھپا لیتے ہیں پھر کہتے ہیں ”بوتل پلاﺅ پھر ملے گی“، اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے تم میں سے کوئی دوسرے کا سامان ہر گز نہ لے ،نہ مذاق میں اور نہ سنجیدگی میں اور اگر اپنے کسی ساتھی کا عصا(لاٹھی) لے لے(مزاحاً) تو فوری اس کو واپس کردے۔ ہمارے معاشرے میں دوسروں کی اشیاءاستعمال کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ بے احتیاطی پائی جاتی ہے۔ آپ علیہ السلام کے فرامین کی روشنی میں اگر ہم جائزہ لیں تو نظر آجائے گا کہ نہ جانے کتنے مواقع پر شعوری‘ غیر شعوری‘ دانستہ یا انجانے میں ہم اسلامی تعلیمات کی اس عمل کے حوالے سے خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں ۔ دوستی اور بے تکلفی کی آڑ میں ہم اتنا دور چلے جاتے ہیں کہ بلا اجازت دوسروں کی چیز استعمال کرنے کو ہم نے گناہ سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔
عاریتاًہم کوئی چیز دوست احباب سے لے لیتے ہیں ، کبھی ماچس، کبھی پیچ کس‘پلاس یا کوئی دوسرا ضرورت کا آلہ، لیکن تھوڑی دیر کا کہہ کر آتے ہیں ،جب واپس کرنے کا وقت آتا ہے تو پھر واپس کرنے میں سستی کرتے ہیں ،اب یہاں وعدہ خلافی کا گناہ بھی ساتھ شامل ہوگیا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں عاریتاً سواری کی ضرورت پیش آجاتی ہے لیکن ہم سواری کا استعمال انتہائی بے دردی کے ساتھ کرتے ہیں ۔موٹر سائیکل یا کار انتہائی بے احتیاطی کے ساتھ چلاتے ہیں جس سے بظاہر نقصان نہ بھی ہو لیکن اندر سے پوری گاڑی ہل جاتی ہے اور کمزور ہوجاتی ہے‘ کسی سے لی ہوئی چیز کا ایسا برے طریقے سے استعمال بھی اس میں شامل ہوگا۔
کسی سے کتاب پڑھنے کے لئے لے کر آئے لیکن واپس نہیں کی یا کسی کتابوں کی دکان پر جاکر ورق گردانی شروع کردی ،کتاب خریدنے کی نیت نہیں ہے لیکن ہم باقاعدہ مطالعے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔یہ دوسروںکی اشیا کو ان کی خوشی کے بغیر استعمال کرنے کے زمرہ میں ہے ۔بلااجازت کسی کا موبائل اٹھا کر دیکھنا‘ کاپی سے ورق پھاڑ لینا‘ قلم استعمال کرنا‘ مسجد میں یا گھر میں جوتا پہن لینا اور جوتے کا مالک جوتے کو تلاش کررہا ہو ‘ اخبار نہیں خریدنا لیکن اخبار کی دکان پر جاکر اخبار کی سرخیاں پڑھنا ،یہ سب معاملات اسی تعلیم کے تحت آئیں گے۔ اب ان ہی باتوں سے چھوٹے چھوٹے جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں جو بعد میں بڑی بڑی لڑائیوں اور رنجشوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
لہٰذا اگر ہر شخص یہ سوچ لے کہ میں دوسروں کی اشیاءکو ان کی اجازت اور خوشی کے بغیر استعمال نہیں کروں گا تو معاشرے میں پھیلے بہت سے جھگڑے خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اللہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں