
مسلمانوں کی قیمتی جائیدادوں پر مودی سرکار کی نظر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ہندو انتہا پسند بھارت میں مسلمان کی جان ومال کا تحفظ نہیں اب مودی سرکار بھارتی مسلمانوں کی قیمتی وقف جائیدادیں ہڑپ کرنا چاہتی ہے۔ مودی کی سربراہی میں بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت سے متعلق یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ وقف قانون کی آڑ لے کر مسلمانوں کی قیمتی وقف جائیدادوں کو ہڑپنا چاہتی ہے۔
بھارت بھر میں مسلمانوں کی وقف جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں جو لگ بھگ 10 لاکھ ایکڑ پر محیط ہیں۔ ان میں زرعی زمینوں کے ساتھ شہری عمارتیں، دکانیں، مساجد، مزارات اور قبرستان بھی شامل ہیں اور ان کی موجودہ مالیت 14 ارب امریکی ڈالر (پاکستانی لگ بھگ 3920 ارب روپے) ہے۔ مسلمانوں نے یہ جائیدادیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر رکھی ہیں اور ان سے ہونے والی آمدنی مدارس اور دیگر فلاحی مسلم اداروں کو ملتی ہے اور انہیں 32 وقف بورڈ چلاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف اِن کی آمدن مدارس اور دیگر فلاحی مسلم اداروں کو ملتی ہے، انہیں 1995وقف ایکٹ کے تحت کام کرتے 32 وقف بورڈ چلاتے ہیں۔تاہم مودی سرکار جس میں مسلمان خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اب وہ وقف بورڈ کو کرپشن کا گڑھ بتا کر وقف ایکٹ میں ترمیم کر رہی ہے۔ اس ترمیم کے تحت وقف جائیدادوں کا انتظام وقف بورڈز کے بجائے ریاستی حکومتوں کی تحویل میں آ جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم مخالف اقدامات کے باعث مودی سرکار عالمی اور مسلم ممالک کے دباؤ میں ہے اور اس نے خصوصاً عرب ممالک سے تعلقات متاثر ہونے سے بچانے کے لیے قانون کی آڑ میں یہ گھناؤنا ہتھکنڈا اپنا رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے 1995 کے وقف قانون میں ترمیم کا بل اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، جس کی مسلمان اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہے ہیں۔حکومت کی ان ترامیم کو وقف کے املاک کو ریگولیٹ کرنے کی سمت میں ایک بڑے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔وقف بورڈ کے قوانین میں کی گئی ترامیم حکومت کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ ازخود یہ تعین کرے کہ کوئی جائیداد وقف کی ملکیت کیسے بنے گی یا ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کی تشکیل کیسے ہو گی۔وقف املاک کا معاملہ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کے لیے اہم موضوع رہا ہے۔مجوزہ ترامیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی جے پی رہنما پریم شْکلا کا کہنا تھا کہ ‘وقف بورڈ کے پاس 50 ممالک کے رقبے سے زیادہ اراضی ہے، اس لیے اس لینڈ جہاد کو روکنے کے لیے حکومت ایک بل لا رہی ہے جو وقف بورڈ کو شفاف بنائے گا۔’تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی ہے۔
وقف ایکٹ پہلی بار 1954 میں پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ بعد میں اسے منسوخ کر 1995 میں ایک نیا وقف ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے گئے تھے۔2013 میں اس ایکٹ میں مزید ترمیم کی گئی، جس کے تحت وقف بورڈ کو لوگوں کی طرف سے وقف کی گئی جائیداد کو ‘وقف جائیداد’ کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔یہ اکثر کہا جاتا تھا کہ ایک بار وقف کی گئی جائیداد ہمیشہ کے لیے وقف بورڈ کی جائیداد ہوتی ہے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں 32 وقف بورڈ ہیں، جن میں شیعہ اور سنّیوں کے خصوصی وقف بورڈ بھی شامل ہیں۔لیکن اتنے وسیع پیمانے پر جائیداد ہونے کے باوجود بھی مبینہ بدعنوانی کے وجہ سے وقف بورڈ کو محض 200 کروڑ روپے کی آمدنی ہی ہوتی ہے، جس پر مسلم تنظیموں نے پہلے بھی تنقید کی تھی اور شفافیت کا مطالبہ کیا تھا۔وقف بورڈ کے پرانے قانون میں تقریباً تین درجن تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جنھیں ناقدین نے مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔تجویز کردہ تبدیلی ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔ان ترامیم کا مقصد ظاہری طور پر مرکزی وقف کونسل اور ریاستی بورڈز میں خواتین کی تعداد کو بڑھانا بھی ہے۔یہ بِل مرکزی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکٹو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کو ریاستی حکومت کے ذریعہ تعینات سکے۔ترامیم کے ذریعے ‘استعمال کے ذریعہ وقف’ (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔
واضح رہے کہ کئی معروف اور مالدار مسلمان شخصیات اکثر اپنی جائیداد کے کچھ حصے کو وقف کیا کرتے تھے، لیکن قانونی طور پر وقف کے پاس بہت ساری زمینوں کے کاغذات نہیں اور بہت سی زمینوں کے دستاویزات گْم ہو چکے ہیں۔ان میں سے کئی جائیداد یا زمینیں اس زمانے میں وقف کی گئی تھیں جب جائیداد کو زبانی طور پر وقف کرنا عام تھا اور دستاویزات کا استعمال عام نہیں تھا۔ایسے میں مثال کے طور پر ایک مسجد کو وقف نامے کی عدم موجودگی میں بھی وقف کی جائیداد تصور کیا جاتا تھا۔نئی مجوزہ ترامیم کے مطابق اگر کسی جائیداد کا وقف نامہ موجود نہیں تو وقف کی اس جائیداد کی ملکیت مشتبہ تصور کی جائے گی۔سرکاری ذرائع نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ اس نے ترامیم کو متعارف کروانے سے پہلے مسلمانوں اور ان کی تنظیموں سے مشورہ کیا لیکن کئی مسلمانوں اور ان سے وابستہ تنظیموں نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔مسلمان تنظیموں کے ایک گروپ ‘آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت’ نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔یہ بھارت کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے اور 22 کروڑ سے زیادہ اقلیتی شہریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔’