میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کا خفیہ نیوکلیئر سٹی ۔۔جارحانہ عزائم کاخوف ناک کھیل بے نقاب

بھارت کا خفیہ نیوکلیئر سٹی ۔۔جارحانہ عزائم کاخوف ناک کھیل بے نقاب

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭ایٹمی ذخائر میں اضافے کے ساتھ ساتھ جوہری آبدوزوں کی تیاریوں میں مصروف، پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری
ایچ اے نقوی
ترجمان دفتر خارجہ نے دنیا کی توجہ پڑوسی ملک کی جوہری سرگرمیوں کی طرف دلاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے بھارت نے ایک ‘خفیہ نیوکلیئر سٹی تعمیر کر رکھا ہے۔اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے کہا، ‘بھارت بین البر اعظمی میزائل کے تجربات کر رہا ہے، جس سے خطے میں ہتھیاروں کا توازن متاثر ہو رہا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا، ‘بھارت کے پاس ایٹمی اسلحے کے ذخائر موجود ہیں اور اس نے ایک خفیہ نیوکلیئر سٹی بھی تعمیر کر رکھا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکریٹری برائے اقوام متحدہ و اکنامک کوآپریشن تسنیم اسلم نے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت اپنے ایٹمی ذخائر میں روز بروز اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ جوہری آبدوزوں کی تیاری میں بھی مصروف ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لیے تیار رہنے کے علاوہ اور کوئی آپشن موجود نہیں‘۔تاہم تسنیم اسلم کا کہنا تھا کہ پاکستان ضرورت سے زیادہ جوہری ہتھیار نہ رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
بھارت کے خفیہ نیوکلیئر سٹی کاانکشاف اس کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم اور جنگجویانہ ذہنیت کا ایک اور ثبوت ہے اور عالمی برادری خاص طورپر ایٹمی اسلحہ کے پھیلاﺅ کو روکنے کی کوششیں کرنے والی عالمی طاقتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔انھیں اس انکشاف پر فوری توجہ دے کر بھارت کے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ قدموں کوروکنے کیلئے موثر اقدام کرنے چاہئےں۔
وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکریٹری برائے (اقوام متحدہ و اکنامک کوآپریشن) تسنیم اسلم نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ بھارت جوہری آبدوزوں کی تیاری میں مصروف ہے۔ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ایک سمینار سے خطاب کے دوران تسنیم اسلم نے کہا کہ بھارت اپنے ایٹمی ذخائر میں روز بروز اضافہ کررہا ہے۔ ’ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنے دفاع کے لیے تیار رہنے کے علاوہ اور کوئی آپشن موجود نہیں‘۔تاہم پاکستان ضرورت سے زیادہ جوہری ہتھیار نہ رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ہےاوربھارتی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں‘۔ایڈیشنل سیکریٹری نے خبردار کیا کہ اگر بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت دی گئی تو خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔تسنیم اسلم کا یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب گزشتہ روز بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر الزامات کی برسات کی تھی اور انھوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی ختم نہیں ہوتی تو جلد ہی پاکستان جلد 10 حصوں میں بٹ جائے گا‘۔
ایڈیشنل سیکریٹری تسنیم اسلم نے نشاندہی کی کہ بھارت پاکستان پر غیر ریاستی دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے لیکن پاکستان تو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے، جس کے پاکستان کے پاس ثبوت بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت ’را‘ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں مصروف ہے۔تسنیم اسلم نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی حوصلہ شکنی اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت میں روڑے اٹکائے گئے۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود پاکستان کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں موجودگی سے افغانستان میں امن کے قیام کے عزم کی تجدید ہوئی جبکہ بھارت کی جانب سے ہارٹ آف ایشیا کو ہائی جیک کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں۔تسنیم اسلم نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں اور نہ ہی کوئی بیک ڈور رابطے ہیں، جبکہ دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ پاک بحریہ نے پاکستانی سمندری علاقے میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگا کر انھیں اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔پاک بحریہ کا کہنا تھا کہ ‘پاک بحریہ کے فلیٹ یونٹس نے پاکستان کے سمندری علاقے کے جنوب میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگایا اور اس کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا۔مزید کہا گیا تھا کہ ‘پاکستان نیوی نے بھارتی آبدوز کی اپنی موجودگی کو خفیہ رکھنے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا، نیوی فلیٹ یونٹس نے آبدوز کا مسلسل تعاقب کیا اور ا±سے پاکستانی پانیوں سے دور دھکیل دیا۔پاکستان کی سمندری حدود میں بھارتی آبدوز پکڑے جانے کے بعد پاکستان نے اپنی سمندری حدود اور خاص طورپر گوادر کی بندرگاہ کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی انتظامات کئے تھے اور اس مقصد کیلئے پاک بحریہ کی جانب سے گوادر پورٹ اور اس ملحقہ سمندری راستوں کی حفاظت کے لیے خصوصی دستہ ’ٹاسک فورس 88‘ تشکیل دے دیا گیا تھا۔یہ ٹاسک فورس قائم کرنے کافیصلہ گوادر میں پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس کے دوران کیاگیاتھا اور اس فیصلے کے تحت خصوصی ٹاسک فورس کو باضابطہ طور پر حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس طرح پاک بحریہ نے گوادر پورٹ کی سمندری سیکورٹی اور اس سے منسلک سمندری راستوں کو لاحق روایتی اور غیر روایتی خطرات کا سامنا کرنے کے لیے ’ٹاسک فورس 88‘ (TF-88) بنانے کاجو منصوبہ بنایا تھا اسے اب عملی جامہ پہنا یا جا چکا ہے۔سیکورٹی ذرائع کے مطابق اس خصوصی میری ٹائم فورس کی تیاری پاک چین اقتصادی راہداری سے آپریشنز کے آغاز کے بعد ضروری تھی، جس سے گوادر میں سمندری سرگرمی اور بحری راستے مزید محفوظ ہونے کی توقع ہے اور میری ٹائم کی اثر پزیری میں اضافہ ہوگا۔اس حوالے سے پاک بحریہ کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس 88 بحری جہازوں، فاسٹ اٹیک کرافٹ، ایئرکرافٹ، ڈرونز اور نگرانی کے جدید آلات سے لیس ہوگی جبکہ میرینز کو سمندر اور گوادر کے اطراف میں سیکورٹی آپریشنز کے لیے تعینات کیا جائے گا۔یہ ’ٹاسک فورس منصوبے کی مجموعی سیکورٹی کے لیے انتہائی کارگر ہوگی، راہداری کے زمینی راستوں کو پہلے ہی خصوصی سیکورٹی ڈویڑن کے ذریعے محفوظ بنایا جاچکا ہے اور اب سی پیک میں مرکزی حیثیت رکھنے والے گوادر کو بھی محفوظ بنایا جاسکے گا‘۔
پاکستان کو بھارت کی جانب سے سمندری سیکورٹی کے چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم چین کے گوادر پورٹ سے وابستہ ہونے اور سی پیک کے آغاز نے سیکورٹی کے ماحول کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بھارت گوادر پورٹ کو چین کا بحیرہ عرب میں قدم جمانے کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جوابی حکمت عملی کے طور پر مختلف دھمکیاں دے رہا ہے۔اسی وجہ سے عام طورپر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے پروجیکٹ کو نقصان پہنچانے کیلئے گوادر کے اطراف کے بڑے حصے میں اپنی سرگرمیاں بڑھادی ہیں۔اسی طرح اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ سی پیک کی میری ٹائم ٹریفک کو غیر روایتی خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں سمندری دہشت گردی، منشیات اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ اور بحری لوٹ مار شامل ہیں، جبکہ اس خطے کو پہلے ہی ان میں سے کئی مسائل کا سامنا ہے۔سیکورٹی کی پیچیدہ صورتحال کے باعث سمندری ٹریفک کے خطرات بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے کارگو کی انشورنس لاگت میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جبکہ چینی حکام کی جانب سے بھی پاکستان پر سی پیک کی سیکورٹی بڑھانے کے لیے زور دیا جارہا تھا۔ پاک بحریہ نے گوادر کے ساحلی علاقے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے’کوسٹل سیکورٹی‘ اور ’ہاربر ڈیفنس فورس‘ بھی تشکیل دی ہے جبکہ گوادر میں چینی ورکرز کی سیکورٹی کے لیے ’فورس پروٹیکشن بٹالین‘ بھی تعینات کی گئی ہے۔تاہم بھارتی حکومت کے جنگی عزائم کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ حکومت پاک فوج کو بھارت کے جارحانہ عزائم کامقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار اور چوکس رہنے اور پوری دنیاسے بھارت کے حاصل کردہ جدید اسلحہ کے متوقع استعمال کی صورت میں جوابی حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے تمام تر وسائل فراہم کرے تاکہ بھارت کو کسی بھی جارحیت کی صورت میں فوری طورپر بھرپور جواب دیاجاسکے اور پاکستان کی مسلح افواج بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اٹھائی جانے والی آنکھ کو اٹھنے سے قبل پھوڑ دینے کی صلاحیت حاصل ہوجائے۔
واضح رہے کہ 8 جولائی کو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتا رہا ہے۔گزشتہ تین ماہ کے دوران لائن آف کنٹرول پر بھی بھارت کی جانب سے درجنوں مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جس میں متعدد پاکستانی شہری اور فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے کشمیر کی حالیہ صورتحال پربھارت کو مذاکرات کی کئی بار دعوت دی گئی ہے تاہم بھارت نے کشمیر پر مذاکرات سے صاف انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیاہوا ہے کہ وہ صرف دہشتگردی پر بات کرے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں