میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کتابیں کیا بولتی ہیں؟

کتابیں کیا بولتی ہیں؟

منتظم
منگل, ۱۰ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

رضوان الرحمن رضی
لاہورمیں بہت سی بری چیزوں کے ساتھ ایک اچھی بات بھی ہوئی ہے وہ یہ کہ شہر کے سب سے مہنگے ترین علاقے ، مین بلیوارڈ گلبرگ، پر کتابوں کی ایک غیر معمولی کتاب کا ظہور ہوا ہے ۔ ریڈنگز نامی اس کتب فروش کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں پر کتاب کے مصنف کا تعارف ، پیش لفظ پڑھ کر کتاب کو ’چکھنے ‘ کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ یعنی اگر آپ کسی کتاب کو’اچھی طرح‘ دیکھ بھال کر خریدنا چاہتے ہیں تو آپ کو کتابوں کی شلیف کے پاس ہی کرسی اور قالین کی ’سہولت ‘دستیاب ہے، بشرطیکہ آپ کتابوں کی الماریوں کے درمیان سے گزرنے والی اپنی طرح کی دیگر مخلوق کی راہ میں حائل نہ ہوں ۔
کتابوں کی اس بہت بڑی دُکان کے اندر چائے خانہ بھی موجود ہے جہاں سے آپ چائے یا کافی کے کپ سے اپنے جسم میں کم ہوتی کیفین یا شوگر کالیول بھی پورا کر سکتے ہیں۔ اس ہفتے کچھ گھنٹے وہاں پر صرف کرنے کا اتفاق ہوا۔ ادب اور فکشن کو چھوڑیں ، حالاتِ حاضرہ کے موضوع پر لکھی گئی ،تازہ ترین کتب کی ورق گردانی کا ”غیر آئینی“ حق ہم نے خوب خوب استعمال کیا۔ کوئی ڈیڑھ درجن بھر کتب کی ورق گردانی کے بعد ایک بات خوفناک جھماکے سے ہمارے ذہن میں کوندگئی۔
حالاتِ حاضرہ کی جتنی بھی تازہ ترین کتابیں بیرونِ ملک سے چھپ کر یہاں تک پہنچی یا پہنچائی گئی تھیں، اُن میں ایک بات مشترک تھی اور وہ یہ کہ ”پاکستان ایک ناکام ریاست ہے، اس کے تمام ادارے باہم دست و گریبان ہیں، نظام نام کی کوئی چیز نہیں، اقتصادی اشاریے تباہی وبربادی کے مظہرہیں،کوئی دن جاتا ہے کہ یہ ملک دھڑام سے گرجائے گا“ (خاکم بدہن) ۔ اس طرح کی بیشتر کتب چٹی چمڑی والے گورے مصنفین نے لکھ رکھی تھیں۔
ایک گوری چمڑی والے صحافی کا قصہ سن لیں ، باقی بھی کم و بیش ایسے ہی تھے ۔ موصوف رائٹرز نیوز ایجنسی کے نئی دہلی کے بیوروچیف رہے اور واپس جا کر اُنہوںنے پاکستان کے سیاسی ،معاشرتی اور معاشی معاملات پر یہ کتاب لکھ ماری۔ اس پوری کتاب میں وہی بیانیہ تھا جو بھارتی مصنفین اور صحافی چباتے نظر آتے ہیں۔ ہم کلامی کا دورہ پڑ گیااور خود سے مکالمہ شروع کیا۔ کسی بھی معاشرے پر قلم اٹھانے سے پہلے، اور اس کے معاشرتی اختلاف پر سیر حاصل گفتگو کرکے ان سے نتائج اخذ کرنے کے لئے آپ کو اس معاشرے کے تمام طبقات کے نمائندہ لوگوں سے سیر حاصل گفتگو کرنا ہوتی ہے، ان کے درمیان رہنا ہوتا ہے، ان کو محسوس کرنا ہوتا ہے۔ چند سو الفاظ کی لکھی ہوئی روز کی ایک آدھ خبر کو نئی دہلی میں بیٹھ کر ایڈٹ کرنا ،اور خود کو اسلام آباد کے معاملات کا طرم خان سمجھ لینا ،کہاں کی عقل مندی یا پیشہ ورانہ دیانت ہے؟
اس گورے نے ”پاکستان ایک شکست خوردہ ریاست “پر کتاب لکھ ماری ، اس نے کتاب کے آغاز میں ہی یہ بتانا ضروری خیال کیا کہ وہ کوئی دودرجن مرتبہ ہی پاکستان کے ’دورے‘ پر گیا تھا اور بھی اپنے پیشہ ورانہ دورے پر یا پھر کسی اسائمنٹ پر۔اتنے مختصر دوروں میں وہ میرے ملک اور اس کے لوگوں کا کتنا ایک مطالعہ کر پایا ہوگا؟ کتاب کے صفحات گنے اور پھر اس شخص کے (اسکے اپنے بیان کے مطابق) نئی دہلی قیام کے دن گنے، اس ناطے اگر وہ روزانہ اٹھارہ پیج لکھے، کوئی چھٹی نہ کرے ، کوئی ناغہ نہ کرے تو پھر اس کتاب کی تحریر ممکن تھی، دھت تیرے کی ۔ لیکن گورے کو شرم نہیں آئی ۔کیا کریںدنیا بھر میں ایسے ہی چلتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف خفیہ ادارے ایک ہی طرح رو بہ عمل ہیں۔ ہمارے ہاں اسلام آباد کے ایک نڈر اور بے باک صحافی کو امریکیوں کی ایبٹ آباد میں سرجیکل اسٹرائیک کے فوراً بعد ایک کتاب نما کتابچے کا ہیضہ ہوا تھا۔ شاید کسی نے یہ انگریزی مسودہ تھما دیا ہو؟ اس کا موضوع تھا ”ایبٹ آباد آپریشن“۔ مختصر سی کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی، پوری کتاب میں سے بس ایک ہی نکتہ سمجھ میں آیا جو شاید مصنف سے ثابت بھی کروایا گیا کہ الشیخ اسامہ بن لادن کی امریکیوں کو جاسوسی کرنے والے پاک فوج کے دو نہیں بلکہ ایک کرنل رینک کا (ریٹائرڈ) ا فسر تھا ، جس نے یہ خفیہ اطلاعات اسلام آباد میں نہیں بلکہ دبئی میں امریکیوں کو فراہم کی تھیں جس کے بدلے اُسے اور اس کے پورے خاندان کو خصوصی طور پر فوراً ہی امریکی شہریت سے نواز دیا گیا(اور شاید موصوف اس کے بعد پاک سرزمین پر واپس نہیں لوٹے) ۔ پوری کتاب کاایک ہی مطلب تھا کہ ہم سے یہ مطالبہ بھی نہ کیا جائے کہ ادارے کے نظم و ضبط کی دھجیاں بکھیرنے ، اور اس کے راز دشمن کو فراہم کرنے (یعنی غداری کرنے) کے باوجود اس افسر کی واپسی اور کورٹ مارشل کیا جائے۔ کیوں کہ اگرجرم کا ارتکاب پاکستان کی سرزمین پر ہونا ثابت ہو جاتا تو پھر اس کو واپس لا کر اس کے کورٹ مارشل کا مطالبہ ہو سکتا تھا ۔
اس کے علاوہ ”بازارِ حسن سے سیاست تک“ نامی کتاب جو ہمارے سیاستدانوں کی کردار کشی کے لیے لکھوا کر ایک صحافی کے نام سے چھپوائی گئی، وہ بھی اسی طرح کی ایک کارروائی تھی۔ میاں نوازشریف کے اثاثوں کے بارے میں ایک کتاب بھی ہمارے لاہور کے ایک صحافی دوست نے انہی ذرائع پر انحصار کرکے لکھی اور کتاب اس قدر ’معتبر ‘ تھی کہ جب پاناما کیس میں ثبو ت کے طور پر عدالتِ عظمیٰ میں جمع کروائی گئی تو عدالت نے طوطے مینا کی کہانی کہہ کر اس کے صفحات پر پکوڑے رکھ کر بیچنے کا مشورہ دے دیا۔
لیکن وہ کیا ہے کہ ہمارے اداروں کا سارا زور ہمیں دبانے ، تمام تر حرکتوں اور جرائم میں شریکِ جرم ہونے کے باوجود خود کو ریاست کے تمام معاملات سے مبرا اور ماورا ثابت کرنے پر صرف ہوتا ہے۔جب کہ ہمسایہ ملک کے ادارے اپنے ملک کی پالیسی کو اپنی پالیسی سمجھتے ہوئے اسے بڑھاوادینے میں مصروف رہتے ہیں۔یہ وہ جوہری فرق ہے جو ہمیں ہر جگہ پر نظر آتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کو ملٹری ان کارپوریٹڈ لکھنے کے لئے ایک سال کا وظیفہ اور امریکا میں بیٹھ کر تحقیق کرنے کی سہولتوں کی فراہمی امریکیوں نے کی، اور پھر محترمہ عائشہ صدیقہ صاحبہ کی کتاب سامنے آ گئی۔ ہمارے جرنیلوں کی کرتوتوں کے بارے میںہمارے خیالات عالیہ سے آپ بخوبی آگاہ ہیں (ان کی مہربانی ہے کہ وہ برداشت بھی کرتے ہیں) لیکن اپنی فوج پر تنقید میرا حق ہے، میں یہ اپنا حق خود استعمال کرنا چاہوں گا، اگر میں اس کام کے کسی سے پیسے پکڑ لوں تو پھر تو مجھے خواہ نہ خواہ پیسے دینے والے کی خواہش کا احترام کرنا پڑے گا۔پتہ نہیں کیوں مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ پاک فوج کی انڈسٹریل ایمپائر پرامریکی تعاون سے کتاب لکھی گئی۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہ لیا جائے کہ خاکسار فوج کے مالیاتی معاملا ت میں دھماچوکڑی کا حامی ہے۔بلکہ میں اسے پاکستانی معاشرے کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتاہوں۔
میں اپنے ان خیالات سے اس وقت چونکا جب ایک ”کسی جین“میں ملبوس خاتون نے پاس سے کندھا مارکے گزرنا ضروری خیا ل کیا۔ اس جیسی مخلوق کی اس کتابوں کی دُکان میں اکثریت تھی، اس نسل کو اردو نہیں آتی اس میں ان کا کوئی قصور نہیں کہ ا سٹیٹس کے مارے ان کے والدین نے ان کو اپنی زبان سے نابلد رکھا۔لیکن اصل جرم یہ ہے کہ طبقہ اشرافیہ کے یہ برائلر اکثر ان کتابوں کے حوالے ایسے دیتے ہیں جیسے چوزے آج کل دھڑادھڑ نشوونما پاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ارد گرد رو بہ عمل (جیسے تیسے ) نظام کی موجودگی سے انکاری ہوتے ہیں اور اپنے معاشرے کوان کتابوں میں بیان کردہ بیانیوں کی عینک کے ذریعے دیکھتے ہیں اور عام لوگوں کے (جن سے ان کا ربط ضبط خال خال ہی ہوتا ہے) سامنے انہی بدیسی بیانیوں کے داعی رہتے ہیں۔ اس پر مزید یہ ظلم کہ کسی نہ کسی طور ہمارے سرکاری و غیر سرکاری معاملات کوچلانے میں یہ لوگ کسی نہ کسی طور پر خوامخواہ دخیل ہوجاتے ہیں۔ تو پھر وہ ویسی ہی باتیں کرتے پائے جاتے ہیں جیسی آج کل بلاول بھٹو زرداری کرتے پائے جاتے ہیں۔
میںیہ سوچتے ہوئے واپس مڑا ، میرے دونوں بچوں نے کاونٹر پراپنی پسند کی کتابوں کے ڈھیر لگا رکھے تھے، جن میں بہرحال کچھ کتابیں ایسی تھیں جن کو پڑھنے کا مجھ میں جگرا نہیں تھا، بل کے لئے اپنا کریڈٹ کارڈ کاونٹر کی طرف بیٹھے سیلزمین کودیتے ہوئے اس بات کا بہرحال دکھ تھا کہ اردو ادب، فکشن اور شاعری کی کوئی ایک کتاب، سستی ہونے کے باوجود ، ان کے چناو¿ میں جگہ نہیں پاسکی تھی۔ میں نے خود سے منہ چھپا کر پتہ نہیں کن بوجھل قدموں سے گاڑی تک کا سفر طے کیا اور ڈرائیونگ سیٹ پر ڈھیر ہو گیا۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں