میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلاول بھٹوکے دوست کی کمپنی کا کراچی میں بسیں چلانے کا اعلان

بلاول بھٹوکے دوست کی کمپنی کا کراچی میں بسیں چلانے کا اعلان

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ دسمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

(رپورٹ:اسلم شاہ) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے قریبی دوست کی ٹرانسپورٹ کمپنی نے کراچی میں بسوں کے دو روٹس پر بسیں چلانے کا اعلان کیا ہے، پرائیویٹ اتحاد ٹرانسپورٹ کمپنی کے نام سے صوبائی سیکریٹری ٹرانسپورٹ شارق احمد کو نئے روٹس جاری کرنے کی درخواست دائر کردی ہے ،اربن ٹرانسپورٹ کے تحت دونئے پہلے روٹ کھوکھرا پار تا ٹاوربراستہ ملیر، کالابورڈ، ملیر ہالٹ،چھوٹا گیٹ ، ناتھا خان گوٹھ، ڈرگ روڈ، کارساز، نرسری،بلوچ کالونی، ایف ٹی سی، جناح اسپتال، شائین کمپلیکس جنگ پریس،سٹی اسٹیشن ٹاور ہوگااور دوسرا روٹ کورنگی تا صدر براستہ ا ورنگی لانڈھی،بابر مارکیٹ لانڈھی، کورنگی، ریلوے کراسنگ کورنگی، قیوم آباد، اخترکالونی ، ڈیفنس موڑ،کالاپل، ایف ٹی سی پل لکی اسٹار صدر،اس ضمن میںسیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کراچی، نے ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کراچی اور ٹریفک انجینئر نگ بیورو ادارہ ترقیات کراچی کو ہدایت کی ہے کہ اربن ٹرانسپورٹ کے تحت نئے روٹس جاری کریں،جبکہ فرحان بخاری نے داودٔ چورنگی لانڈھی کی بسوں کیلئے لانڈھی ڈپو کو الاٹ کرنے کی درخواست بھی کی ہے،نوسال تک 36سی این جی بسوں کو چلانے کیلئے ٹرانسپورٹ کمپنی قائم کرلی ہے۔ گرین میٹرو سروس کے نام پرگرین بس گلشن حدید سے ٹاور تک بسیں چلائی جارہی تھی اور اب گزشتہ ایک سال سے یہ سروس بند ہے۔قبل ازیں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے قریبی دوست فرحان بخاری کی گرین میٹرو سروس کے نام پر کمپنی کو مفت میں 80کروڑ روپے مالیت کی 36بسیں 2010ء میں دیدی گئی تھی ان بسوں کو 15کروڑ روپے لاگت سے مرمت کے بعد تحفہ مفت میںحوالے کیا گیا تھا،بلاول بھٹو کے دوستی کی وجہ سے صوبائی اور سٹی حکومت کے کسی افسر نے آواز بلند اور نہ احتجاج کیا ، مفت میں بسیں چلانے کے معاہدے پر عملدآمد کے بجائے گاڑیوں کی آمدن اور بسوں میں اشتہار ات کی آمدن میں بھی کوئی حصہ KMC شہر ی ادارے کے بجائے بلاول بھٹو کے دوست کی جیبوں میں چلاگیا ،جس پر سب خاموش اور اپنی آنکھیں بند کرلیں، سابق میئر کراچی وسیم اختر نے چار سال خاموشی کو توڑااور گزشتہ سال ماہ نومبر میں ایک آپریشن کے ذریعے بسیں بازیاب کرالیں، جن میں 19بسوں کو ٹو کرکے لایا گیا اور دیگر بسوں کی حالت بھی اس قابل نہیں کہ سڑکوں پر لایا جاسکے، اب ان بسوں کو چلانے اور مرمت کرنے والا کوئی ٹرانسپورٹرز سامنے آنے کو تیار نہیںاور دوستوں اور چہیتوں کو نواز نے کا سلسلہ جاری ہے۔واضح رہے کہ کراچی بدترین ٹرانسپورٹ کا نظام رکھنے والاشہر، سندھ حکومت نے ٹرانسپورٹ کے تمام شعبہ جات پر قبضہ کرکے اس محکمے کا وجود خطرے میں ڈال دیا،بد قسمتی سے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے بیک وقت 15 ادارے کنٹرول اور پلاننگ کے ادارے کا م کرنے کا منفرد شہر بن گیا ہے اور چھ ادارے صرف شہریوں سے لوٹ مار یعنی آمدن میںاضافہ کرنے میں مصروف عمل ہیں، دنیا بھر میں ٹرانسپورٹ بشمول بس ریل او رپبلک ٹرانسپورٹ ایک ادارے کی چھتری کے نیچے کام کررہے ہیں۔کراچی میں الگ الگ کام کرنے والے اداروں کا ایک دوسرے سے رابطہ یا تعاون یامشاورت کا فقدان ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کراچی اور سندھ کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے میں مکمل طور پر ناکامی سے دوچا ر ہو چکی ہے، 800،2000، 3000اور6000بسیں سڑکوں پر لانے کے مسلسل اعلانات کیے جاتے رہے ہیں، جوصرف اعلان ہی رہے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ سڑکوں پر بسیس لانے میں ناکامی پرکسی کوکوئی ندامت تک محسوس نہیں ہوتی نہ شرم ہے نہ حیا ہے، بلکہ الٹاڈھٹائی سے بسوں کے سہانے خواب دکھانے کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ کراچی کے ٹریفک کے مسائل حل کرنے میں کوئی سنجیدگی نظر نہیںآرہی ہے ، 2008ء سے 2020ء تک ٹرانسپورٹ کے تین وزیر بشمول اخترجدون ، ناصر حسین شاہ اور سردار علی شاہ تک صرف زبانی دعویٰ اور بیانات سے آگے نہ بڑھ سکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں