میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وسیع تر مکالمہ وقت کی ضرورت

وسیع تر مکالمہ وقت کی ضرورت

ویب ڈیسک
بدھ, ۹ دسمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

صاحبانِ فہم ودانش کا کہنا ہے کہ سیاست میں اخلاق و اصول کی اہمیت نہیں بلکہ اقتداراور مفادترجیحی ہوتی ہے دیگر ممالک کا تو پتہ نہیں مگر وطنِ عزیز کی سیاست پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے یہاں دوستی کادم بھرنے والے مخالف بنتے ہوئے کسی جواز کا سہارہ بھی نہیں لیتے اور جواز نہ ہونے پر شرمندگی تک محسوس نہیں کرتے یہاں تو اقتدار کے ساتھ ہی دوست بھی رخصت ہوجاتے ہیں اقتدار ملتے ہی دشمن بھی دوست بننے میں دیر نہیں کرتے خیر اپنے وطن میںپہلی بار ایک نئی روایت قائم ہو رہی ہے جس کے تحت اقتدار کے مکین دوستوں کی بجائے مخالف بڑھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور یہ سارا کام ملک و قوم کے نام پر کیا جارہا ہے جس سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے بڑھتی کشیدگی کاپہلی بار کوئی حل نظر نہیں آرہاکیونکہ فریقین نے بات چیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں تکبر معاشرے میں فسادو بگاڑمیں اضافے کا موجب بنتا ہے اور یہ ناپاک جسارت دونوں طرف سے ہو رہی ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں مذاکرات کی میز پر آکر حل تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن اپوزیشن لیڈر کی مکالمے کی تجویز کی سب سے زیادہ مخالفت حزبِ اقتدار کی طرف سے ہو رہی ہے جس سے سیاسی منظر نامہ مزید پراگندہ ہونے کا امکان ہے۔

زیادہ دور نہیں جاتے 2002کے عام انتخابات کے بعد کا ملکی منظر نامہ دیکھیں تو عمران خان اور مسلم لیگ ن اتحادی رہے مگر آج ایک دوسرے کی شکل تک نہ دیکھنے کے رواداروزیرِ اعظم کے امیدوار مولانا فضل الرحمٰن کو شاہ محمود قریشی اور میر ظفراللہ جمالی پر فوقیت دیتے ہوئے نہ صرف ووٹ دیتے ہیں بلکہ حمایت حاصل کرنے اور اپوزیشن کو متفقہ امیدوار لانے پر قائل کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن چھیاسی جبکہ شاہ محمود قریشی محض ستر ووٹ لے سکے اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمٰن دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر عمران خان کو اقتدار سے رخصت کرنا چاہتے ہیں اور جس کی عمران خان نے ڈٹ کر مخالفت کی وہ شاہ محمود قریشی اب ساتھ کھڑے ہیں خیریہ ملکی سیاست کی واحد مثال نہیں یہاں تو راتوں رات پوری پوری اسمبلی اپنے خیالات بدلنے کے ساتھ نیاسیاسی قبلہ چُن لیتی ہے اور کوئی شرمسار نہیں ہوتا بلکہ اِسے ملکی مفاد کانام دیا جاتا ہے ۔

ملتان جلسے سے جنم لینے والی تلخی تیرہ دسمبر کے لاہور کے جلسے سے قبل ہی بڑھنے لگی ہے حالانکہ ملتان کے جلسے میں بھی اگر حکومت ظرف کا مظاہرہ کرتی تو اپوزیشن عمائدین نے سیاسی نقصان کی بجائے تقاریرمیں رو پیٹ کرواپس لوٹ جانا تھا لیکن حکمرانوں نے جانے کس کے کہنے پر طاقت دکھانے کی کوشش کی اور ایک جلسے کوتحریک بنادیا ایسا مشورہ جس نے بھی دیا وہ حکومت کا ہر گز خیر خواہ نہیں کیونکہ سب پے عیاں ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی دارلحکومت پر چڑھائی کے لیے آئے تو چند ہزار کوبھی اِ رادے سے باز رکھنے یا بزور روکنے کی پولیس میں استعداد نہیں لاکھ گر فتاریاں کریں لاٹھی چارج ہو یا دیگر حربوں سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جائے مظاہرین اسلام آباد پہنچ ہی جاتے ہیں اور پھرحکومت مذاکرات کے ذریعے واپس بھیجنے کی کوشش کرتی ہے یہی ملک کی سیاسی تاریخ ہے اب بھی حکومت نے اپنی حماقتوں سے اپوزیشن کو سخت اقدامات اُٹھانے کی راہ دپرڈال دیاہے جس سے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ سکتا ہے اپوزیشن اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے لیے لانگ مارچ کے علاوہ مشترکہ استعفوں کے آپشن پر بھی غورو فکر کرنے لگی ہے وہ تو بھلا ہو پیپلز پارٹی کا جو اسمبلیوں سے نکلنے سے گریزاں ہے وگرنہ حکومت نے توپوری کوشش کی ہے کہ سب کودیوارسے لگایا جائے اورایک پارٹی نظام رائج کیا جائے۔اسمبلی ممبر منتخب نہ ہونے پر مولانا فضل الرحمٰن کی پوری کوشش ہے کہ اپوزیشن استعفے دیکر اسمبلیوں سے باہر آجائے تاکہ حکومت کی ساکھ نہ رہے کیاحزبِ اقتداراتنی چغد ہے کہ اچھے بُرے کاادراک بھی نہیں ۔

پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کے رہنما مختلف خیالات کے ساتھ مختلف اہداف رکھتے ہیں جن کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ہی عجوبہ ہے اپوزیشن کو اللہ کے عذات کا شکار اور عبرت کا باعث قرار دینے باربار این آرنہ دینے کا آموختہ پڑھنے سے ملک میں پہلی بار دائیں اور بائیں بازو کاغیر متوقع اتحاد ہوا ہے آج وفاق پر ست اور قوم پرست ایک ہیں قومی سوچ اور علاقائی سوچ رکھنے والے یکجا ہو چکے ہیں کیا یہ حکومت کے لیے سخت وقت نہیں ؟دل پر ہاتھ رکھ کر ٹھنڈے دل سے بتائیںکیا یہ خطرہ نہیں ۔اگر نہیں تو حکمران کیوں دبائو کا شکاراورخوفزدہ ہیں کیوں الفاظ کی بجائے انگارے اُگلنے لگے ہیں اگر ساری اپوزیشن غدار ہے تو یہاں تک لانے میں کس کا ہاتھ ہے ؟یادرکھیں جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی اہمیت ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپوزیشن تعمیری تنقید چھوڑ کر حکمرانوں کی قصیدہ گو بن جائے لیکن تنقید کے جواب میں غداری کی اسناد تقسیم کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں شہباز شریف بھلے پابندِ سلاسل سہی لیکن اُن کی وسیع ترمکالمے کی تجویز بروقت اور صائب ہے حالانکہ وہ اپوزیشن میں ہیں لیکن وسیع تر مکالمے سے حکومت کا ہی بھلا ہوگا جس کا ادراک کرتے ہوئے اگروزیرِ اعظم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں توملک کوسیاسی استحکام مل سکتا ہے۔

کورونا سے ملک کو اقتصادی ومعاشی چیلنجز کا سامنا ہے تمام تر دعوئوں کے باوجود برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے ترسیلاتِ زر میں ہونے والے اضافے میںحکمرانوں کا ہاتھ نہیں یہ تارکینِ وطن کے خون پسینے کی کمائی ہے جو وہ اپنے اہلِ خانہ کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھجواتے ہیں حکمران تو ملکی قرضے میںروزانہ پانچ ارب کے حساب سے اضافہ کرتے جارہے ہیں اور مہنگائی کوکھلی چھٹی دے رکھی ہے عالمی اِداروںکوخدشہ ہے کہ آئندہ برس 2021میں بھی کورونا کے اثرات چاہے کم سہی لیکن عالمی معیشت متاثر رہے گی لیکن ہم نے ملک وقوم اور معیشت کوبہتربنانے کی بجائے اپوزیشن کو کچلنے کو ہی اولیںفرض تصورکر رکھا ہے این آر او نہ دینے کی رٹ لگا کر ملک کو بدترین انتشار و افراتفری کے حوالے کرنا چاہتے ہیں بجا کہ اپوزیشن کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنا ممکن نہیں لیکن وسیع تر مکالمہ، جس سے ملک و قوم کا بھلا ہو سکتا ہے تو یہ نفع بخش سوداکرتے ہوئے ہچکچانا حب الوطنی نہیںکیونکہ مشاورت میں مصروف اپوزیشن اگر لاہور جلسے کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیتی ہے تو چاہے حکومت ختم نہ ہو لیکن جمہوری ٹرین ڈی ٹریک ہو سکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں